تحریر : عاکف غنی
پاکستان جو اسلام کے نام پر جمہوریت کے مروجہ طریقے سے وجود میں آیا تھا، آج تک بمشکل اپنی شناخت تو بنا پایا مگر ایک ایسی ریاست کے طور پر جو دنیا میں ناکام ریاست کے نام سے پہچانی گئی تو کبھی دہشت گردوں کی آماجگاہ کے طور پر۔دو قومی نظریہ اکہتر میں میں اپنا دم توڑ گیا، اسلام جو کبھی ایک نعرہ تھا، ایک نعرے کے طور پر بھی سیاسی جماعتوں کے منشور سے غائب ہو گیا۔اب لے دے کے ایک جمہوریت بچی تھی اسے بھی ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ کراچی کاامن مشن ہو یا وزیرستان کا ضربِ عذب،فوج کا کردار واضع پیغام دے رہا ہے کہ اس ملک کی حقیقی باگ دوڑ کس کے ہاتھ میں ہے۔فوج نے ملک میں امن لانے کی کوشش کی ہے جو کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے مگر اس امن کو خراب کرنے میں بھی کم از کم دہشت گردی کی حد تک تو فوج کا اپنا ہی کردار تھا کہ یہ مذہبی جماعتوں کو جہاد کے نام سے پروموٹ کرتی رہی ہے جس کا واضع اظہار اپنے ایک حالیہ انٹر ویو میں فوج اور ملک کے سابق سربراہ مشرف پرویز نے کیا ہے۔
پاکستان جسے ایک فلاحی مملکت ہونا تھا مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے،اسے ایک ایسی تجربہ گاہ بنا دیا گیا جہاں کبھی فوج نے اقتدار کے مزے لوٹے تو کبھی سٹیٹس کو کے طاقتور عناصر نے اپنے مفادات کا خوب تحفظ کیا۔عوام کو اسلام،سوشلزم،روٹی کپڑا اور مکان، احتساب اور اس طرح کے کئی نعروں سے ٹرخایا جاتا رہا۔حکمران طبقہ ،اسکا تعلق چاہے فوج سے ہو یا بیوروکیسی سے،جاگیردارانہ ذہنیت کے سیاسی وڈیروں سے ہو یا سرمایہ دار وڈیروں سے،مذہب کے ٹھیکیداروں سے ہو یانام نہاد لبرل ازم کے علمبرداروں سے سب اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑتے رہے اور ملکی مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے پایا۔
پاکستان کو اسلامی پاکستان بنانے کا دعوٰی کرنے والے بھی سوائے لوٹ کھسوٹ کے کچھ نہیں جانتے ،جس کی واضع مثال مولانا فضل لرحمن ہیں جنہیں سوائے ڈیزل پرمٹ ،کشمیر کمیٹی اور وزارتوں کے حصول کے کچھ نہیں آتا،علماء کی اکثریت نے عوام کوفرقوں میں تقسیم کر کے پاکستان میں اسلام کے حقیقی نظام کی راہ خوِد ہی مسدود کر کے رکھ دی ہے۔تبلیغی جماعت کا لاکھوں کا اجتماع ہو یا درگاہوں پہ چڑھاوے چڑھانے والوں کا رش،بندوق اٹھا کر جہاد پہ چل دوڑنے والے ہوں یا حجروں میں بیٹھ کر اللہ ہُو کی رٹ لگانے والے سب اپنے تئیں تو اسلام کی خدمت کر رہے ہوں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے اس نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ بھی یہی ہیں۔
پاکستان میں سب سے بڑی لعنت جاگیر دارانہ نظام ہے جس کا خاتمہ قیامِ پاکستان کے وقت ہی ہو جانا تھا مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا،اب جاگیرداری کے ساتھ ساتھ اسٹیٹس کو بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جب تک جاگیرداری اورا سٹیٹس کو کا خاتمہ نہیں ہوتا دیگر مسائل حل ہونا بھی آسان نہیں۔پاکستان جسے ایک فلاحی مملکت بننا تھا ،مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔بجلی یہاں پوری نہیں ہوتی،گیس کی کمی یہاں پائی جاتی ہے ،پانی بتدریج کم ہو رہا ہے،مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ،کرپشن کا دور دورہ ہے اور سیکیورٹی کے مسائل اپنی جگہ۔مون سون میں ہونے والی بے پناہ بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی بجائے ضائع ہونے دیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں تو برساتی نالوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم ہی بنا دیے جائیں تو نہ صرف پانی کا مسئلہ حل ہو جائے بلکہ بجلی کی قلت بھی نہ رہے۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں خام مال کی کمی نہیں اور نوجوان آبادی کی کثیر تعداد پائی جاتی ہے تو ایسے میں پیداوار بڑھانے کاکوئی منصوبہ کیوں نہیں بنایا جاتا،ہر چیز امپورٹ کی جارہی ہے حالانکہ یہاں ہر چیز پیدا کی جا سکتی ہے جس سے وافر زرِ مبادلہ اکٹھا ہو سکتا ہے اور مہنگائی میں بھی خاطر خوِاہ کمی لائی جا سکتی ہے۔پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ مِس مینیجمنٹ ہے ،بلکہ یہ ام المسائل ہے کہ ہر مسئلہ اسی سے جنم لے رہا ہے اب پی آئی اے ہی کو لے لیں،دنیا کی کئی ایٔرلائنوںکو کھڑی کرنے والی قومی ایٔر لائین اب آخری سانس لے رہی ہے،تجربہ کار ٹیم کا دعوٰی کرنے والے وزیرِ اعظم اس قومی ایٔر لائین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی بجائے بیچنے پر تل گئے ہیں۔
پی آئی اے جو کبھی با کمال لوگوں پر مشتمل کمپنی ہوا کرتی تھی جو لاجواب سروس مہیاکر کے کے دنیا کی بہترین ایٔر لائنوں میں شمار ہوتی تھی مِس مینیجمنٹ کا شکار ہو کر زبوں حالی تک آ پہنچی۔پاکستان تعلیم میں پیچھے،سپورٹس کے لئے سہولیات کا فقدان،صحت کے معاملات زبوں حالی کاشکار ،غرض یہ کہ جس طرف نگاہ دوڑائیں مسائل کے انبار لگے نظر آتے ہیں۔
حکمرانوں کو دیکھیں تو دعوے کرتے،جھوٹ بولتے اور اپنوں کو نوازتے نظر آتے ہیں،انصاف کا دور دور تک امکان نہیں۔کسی کے سوس بینکوں میں پیسے پڑے ہیں تو کسی کی سرمایہ کاری باہر کے ممالک میں ہو رہی ہے،کوئی فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے خوِاب دیکھ رہا ہے تو کوئی لندن میںبیٹھ کر پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرنے پہ تلا بیٹھا ہے۔ عوام کو روٹی کپڑے اور مکان کے لیے پتہ نہیں کیا کیاپاپڑ بیلنا پڑتے ہیں،یکساں نظام تعلیم بھی بس ایک نعرہ ہے جس سے عوام کو ٹرخا دیاجاتا ہے۔
ملک کا ایک وزیرِ اعظم ہے جو پاکستان کا کم اور لاہور کا وزیرِ اعظم زیادہ دِکھتا ہے ،لاہور کومیٹرو بس، اورنج ٹرین سڑکوں اور پلوں سے نوازا جا رہاہے جبکہ پشاور،کراچی یا کوئٹہ کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے،اور تو اور جنوبی پنجاب کو بھی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
ہمارے سیاستدان مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کی بجائے حصولِ اقتدار اور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے سوا کچھ نہیں جانتے اس لئے پاکستان کو مسائل سے نجات دلا کر ایک فلاحی مملکت بنانے کے لئے عوام کو اٹھنا ہو گا اور ایسے لوگوں کو سامنے لانا ہوگا جو جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ اور اسٹیٹس کو کو ختم کر کے عوام کی حکمرانی کا راستہ ہموار کر سکیں ایسا ہوا تو ہی یہاں کے مسائل ختم ہوں گے اور یہ ملک ایک فلاحی مملکت بن سکے گا۔
تحریر : عاکف غنی