’’آپ پھر واپس آگئے ہو‘‘ میں نے ذرا سی ترشی کے ساتھ نوجوان سے پوچھا‘ نوجوان نے اپنے جسم کے ساتھ جھنڈا لپیٹ رکھا تھا‘ ماتھے پر سبز ہلالی پرچم بنوا رکھا تھا اور سر پر سبزرنگ کی ٹوپی پہن رکھی تھی‘ وہ جوش کے ساتھ بولا ’’سر میں ایک کام بھول گیا تھا‘ میں وہ کام کرنے کے لیے واپس آیا ہوں‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ کام کیا ہے‘‘ نوجوان نے ڈھولچی کو اشارہ کیا‘ خاتون ڈھولچی نے ڈھول بجانا شروع کیا اور نوجوان نے دیوانہ وار ناچنا شروع کر دیا‘ وہ پاکستان زندہ باد‘ کرکٹ زندہ باد اور پی سی بی زندہ باد کے نعرے بھی لگا رہا تھا‘ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا‘ نوجوان کے گرد کھڑے نوجوان تھوڑی دیر تک اسے دیکھتے رہے اور پھر وہ بھی اس دیوانگی میں شریک ہو گئے۔
وہ جنون میں ناچنے لگے اور پھر وہاں لبرٹی چوک میں ٹھیک اس جگہ جہاں تین مارچ 2009ء کو دہشتگردوں نے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کر کے پاکستان میں کرکٹ کے دروازے بند کر دیے تھے وہاں ڈھول کی تھاپ تھی‘ نوجوان تھے‘ پاکستان زندہ باد کے نعرے تھے‘ سبز ہلالی پرچم تھے اور دیوانہ وار دھمال تھی‘ لاہور میں لاہوری ’’رنگ بازی‘‘ انتہا کو چھو رہی تھی‘ یہ رنگ بازی پچھلے پانچ سو سال سے لاہور میں حکومت کر رہی ہے‘ لاہور اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں نیل کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہوتا تھا۔ شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی باقاعدہ منڈی قائم کی‘ یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی کہلائی‘ لاہور کے مضافات میں میلوں تک نیل کے پودے تھے‘ لوگ ان پودوں کا ست نکالتے تھے‘ ست کو بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکایا جاتا تھا‘ اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں۔
یہ ڈلیاں ٹوکریوں اور بوریوں میں بند ہو کر اکبری منڈی پہنچتی تھیں‘ تاجروں کے ہاتھوں بکتی تھیں‘ گڈوں کے ذریعے ممبئی (پرانا نام بمبئی) اورکولکتہ (پرانا نام کلکتہ) پہنچتی تھیں اور وہاں سے انھیں فرانسیسی اور اطالوی تاجر خریدتے تھے‘ جہازوں میں بھرتے تھے اور یہ نیل بعد ازاں اٹلی کے ساحلی شہر جنوا (یہ شہر جنیوا نہیں ہے) پہنچ جاتا تھا‘ جنوا فرانسیسی شہر نیم کے قریب تھا‘ جنوا اطالوی شہر ہے جب کہ نیم فرانسیسی‘ دونوں قریب قریب واقع ہیں‘ نیم شہر ڈی نیم کہلاتا ہے‘ ڈی نیم میں ہزاروں کھڈیاں تھیں‘ ان کھڈیوں پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا۔
یہ کپڑا سرج کہلاتا تھا‘ سرج کپڑا بن کر جنوا پہنچتا تھا‘ جنوا کے انگریز اس کپڑے پر لاہور کا نیل چڑھاتے تھے‘ کپڑا نیلا ہو جاتا تھا‘ وہ نیلا کپڑا بعد ازاں درزیوں کے پاس پہنچتا تھا‘ درزی اس سے مزدوروں‘ مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے تھے‘ وہ پتلونیں بعد ازاں جنوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں‘ جینز پتلونیں مشہور ہو گئیں تو ڈی نیم شہر کے تاجروں نے جوش حسد میں اپنے کپڑے کو ڈی نیم کہنا شروع کر دیا‘ یہ ڈی نیم کپڑا آہستہ آہستہ ’’ڈینم‘‘ بن گیا‘ جینز اور ڈینم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہوئے اور یہ ڈینم جینز بن گئے۔
جینز کے تین عناصر تھے‘ ڈی نیم کا کپڑا‘ لاہور کا نیل اور جنوا کے درزی‘ مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تو شاید جینز نہ بنتی اور اگر بنتی تو یہ کم از کم نیلی نہ ہوتی‘ جینز کا نیلا پن بہرحال لاہور کی مہربانی تھا‘ آپ آج بھی انگریزی کی پرانی ڈکشنریاں نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ان ڈکشنریوں میں نیل کا نام لاہوری ملے گا‘ گورے اس زمانے میں نیل کو لاہوری کہتے تھے‘ یہ رنگ بعد ازاں انڈیا کی مناسبت سے انڈیگو بن گیا۔
فرانسیسی‘ اطالوی‘ پرتگالی اور ڈچ نیل کے لیے ہندوستان آتے تھے جب کہ برطانوی افیون کے لیے یہاں آئے اور پھر پورا ہندوستان ہتھیا لیا لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں‘ ہم ابھی اس دور کی بات کر رہے ہیں جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا اور یہ لاہوری اور انڈیگو کہلاتاتھا اور یہ ہزاروں میل کا زمینی اور سمندری فاصلہ طے کر کے جنوا پہنچتا تھا‘ جینز کا حصہ بنتا تھا اور پوری دنیا میں پھیل جاتا تھا لیکن پھر لاہور کے لاہوری نیل کو نظر لگ گئی۔
مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا‘ یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لیے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں‘ اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور یوں نیل کی صنعت زوال پذیر ہوگئی‘ لاہوری لاہوری نہ رہا مگر لاہور کے شہری آج بھی رنگ باز ہیں‘ لاہوریوں کو یہ خطاب ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا‘ ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی۔
فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا ہے مثلاً بیورو کریٹ کو فارسی میں کاغذ باز کہا جاتا ہے اور کبوتر پالنے والوں کو کبوتر باز‘ اس مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہوگئے چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو ’’رنگ باز‘‘ کہنے لگے‘ اس زمانے میں کیونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا‘ یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ ہے۔
لاہوری رنگ جمانے اور رنگ کی رنگینی بڑھانے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے‘ یہ رنگ کے عین درمیان کود پڑتے ہیں اور پھر دائیں بائیں موجود تمام لوگوں کو بھی اس رنگ میں رنگ دیتے ہیں اور وہ لاہوری نوجوان بھی یہی کر رہا تھا‘ وہ ناچ رہا تھا اور اس کے ساتھ موجود باقی لوگ بھی ناچ رہے تھے‘ مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا یہ لوگ اگر اسی طرح ناچتے رہے تو میں بھی اس رنگ بازی کاشکار ہو جاؤں گا‘ میں بھی دھمال ڈالنے لگوں گا چنانچہ میں نے ڈھول روکا‘ نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو آگے روانہ کر دیا۔
یہ لاہور میں ورلڈ الیون اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے میچ کا واقعہ تھا‘ میں لبرٹی چوک میں کھڑاتھا‘ پاکستان پہلا میچ جیت گیا‘ نوجوان اسٹیڈیم سے نکلے اور قذافی اسٹیڈیم کے دائیں بائیں پھیل گئے‘ وہ نوجوان بھی جھنڈا لپیٹ کر میرے پاس آیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگا‘ وہ نعرے لگانے کے بعد چلا گیا لیکن تھوڑی دیر بعد واپس آیا اور اپنا ادھورا کام پورا کرنے میں لگ گیا‘ وہ دھمال ڈالنے لگا‘ وہ لاہور اور پنجاب بلکہ پورے پاکستان کا نمایندہ تھا‘ وہ ثابت کر رہا تھا پاکستانی شہری کرکٹ کی واپسی پر دل سے خوش ہیں۔
کرکٹ پاکستانی جینز کا حصہ ہے‘ ہم پاکستانی اللہ اور اس کے رسول ﷺ‘اپنے ملک‘ جمہوریت اور کرکٹ چاروں پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتے‘ ہم جتنے بھی گناہگار‘ سیاہ کار اور برے ہو جائیں لیکن جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام آئے گا تو ہم جان تک دے دیں گے‘ ہم پاکستان کی آن‘ بان اور شان پر بھی کٹ مرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں‘ ملک میں دس دس سال طویل تین مارشل لاء لگے لیکن جوں ہی فوجی اقتدار کی گرفت ذرا سی ڈھیلی پڑی عوام دوڑ کر جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
ہم لوگ مذہبی سیاسی جماعتوں کوبھی جان اور مال دے دیں گے لیکن ہم انھیں ووٹ نہیں دیںگے‘ ہم ایوب خان کو آج بھی یاد کرتے ہیں لیکن جب ایوب خان کی آمریت کا بت توڑنے کی باری آئی تو پاکستانی قوم نے ایوب خان کو دو ماہ میں ’’ہائے ہائے‘‘ بنا دیا تھا‘ یہ واقعات ہماری جمہوریت پسندی کو ظاہر کرتے ہیں اور ہم اسی اسپرٹ سے کرکٹ کوبھی پسند کرتے ہیں‘ آپ کسی گراؤنڈ میں کرکٹ شروع کرا دیں پاکستانی قوم اپنے تمام نسلی‘ لسانی اور مذہبی اختلافات بھلا کر دھمال ڈالنے لگے گی‘ یہ صرف اور صرف پاکستانی بن جائے گی۔
ایک قوم‘ ایک پرچم اور ایک نعرہ‘ کرکٹ پاکستانیوں کے لیے اتنی اہم‘ اتنی ضروری ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ اور نجم سیٹھی دونوں نے یہ ضروری‘ یہ اہم خوراک پاکستانیوں کو دے دی‘ ملک میں ساڑھے آٹھ سال کے وقفے سے انٹرنیشنل کرکٹ شروع ہوئی اور کمال ہو گیا‘ سات ملکوں کے چودہ بڑے کھلاڑی پاکستان آئے‘ قذافی اسٹیڈیم میں پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور پاکستانیوں کو ان کی مرغوب ترین غذا دے دی‘ پاکستانی قوم نہال ہو گئی‘ یہ سڑکوں پر نکل کر دیوانہ وار ناچنے لگی اور میں تین دن لاہور میں رہ کر خوش پاکستانیوں کی یہ خوشی دیکھتا رہا‘ میں بھی سبز شرٹ پہن کر خوشی مناتا رہا۔
ہمیں آج ماننا ہو گا اداس اور محروم پاکستان کے اندر سے توانا‘ مضبوط اور نیا پاکستان جنم لے رہا ہے‘ لوڈ شیڈنگ کا بحران تقریباً ختم ہو چکا ہے‘ حکومت اگر واقعی نومبر دسمبر میں پاکستان کو ’’لوڈ شیڈنگ فری‘‘ بنا دیتی ہے تو کمال ہو جائے گا‘ دہشتگردی بھی بہت کم ہو چکی ہے‘ یہ درست ہے انصار الشرعیہ جیسے نئے نئے گروپ سامنے آ رہے ہیں‘ یونیورسٹیوں کے نوجوان بھی دہشتگردوں کا حصہ بن رہے ہیں لیکن آپ کو اس کے باوجود آج 2012ء اور 2017ء کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا‘ پاکستان نے پچھلے 16 برسوں میں یہ بھی ثابت کر دیا ہم واقعی ایک باہمت قوم ہیں۔
ہم نے دہشتگردی کی جنگ میں 70 ہزار لاشیں اٹھائیں لیکن دہشتگرد پاکستان کی ہمت نہ توڑ سکے اور اب اگر ہم بھارت کی خوفناک مخالفت کے باوجود کرکٹ کوبھی واپس لا رہے ہیں تو یہ بھی ثابت کر رہا ہے پاکستان آج بھی پاکستان ہے اور پاکستان کو شکست دینا آسان نہیں‘ ہم نے کرکٹ کے تین میچوں کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا ہم شاید دہشتگردی کو مکمل طور پر شکست نہیں دے سکے لیکن ہم نے دہشت کو ضرور ہرا دیا‘ ہم نے دنیا کو یہ بھی بتا دیا پاکستانی کرکٹ ٹیم ہار سکتی ہے لیکن پاکستان ہر حال میں جیتے گا‘ یہ نہیں ہارے گا اور لاہوری رنگ بازوں نے ایک پھر یہ ثابت کر دیا‘ انھوں نے دنیا کو ایک بار پھر پاکستان کو پاکستان بنا کر دکھا دیا۔