تحریر: ایم ایم علی
یوں تو ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہمارے ملک میں کرکٹ کی مقبولیت ہاکی سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کرکٹ کے متولوں کیلئے یہ کھیل ایک جنون کی حثیت اختیا ر کر چکا ہے۔ یوں تو کرکٹ کے متوالوں کو قومی ٹیم کے ہر میچ کا شدت سے انتظار رہتا ہے لیکن کرکٹ کے چاہنے والوں کو جس ایونٹ کا انتظار سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ ہے کرکٹ ورلڈ کپ، اور اگر ورلڈ کپ میں میچ ہو بھارت کے ساتھ تو اس میچ کی تو بات ہی الگ ہے، پاک بھارت میچ تو دونوں ملکوں کی عوام کیلئے فائنل سے پہلے فائنل بن جاتا ہے۔
بد قسمتی سے قومی ٹیم ورلڈ کپ میں آج تک بھارتی ٹیم کو شکست نہیں دے سکی ، رواں کرکٹ ورلڈ کپ 2015 میں بھی یہ راویت ختم نہ ہوسکی کرکٹ کے چاہنے والوں کو تواقع تھی کہ اس ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں شاہینوں کا ٹاکرا ایک بار پھر بھار تی سورمائوں سے ہو گا لیکن آسٹر یلیا سے ہا ر کے بعد اب انڈیا کو ورلڈ کپ میں ہارانے کیلئے پاکستانی ٹیم کو اگلے ورلڈ کپ کا انتظار کرنا پڑے گا۔ رواں ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کا آغاز تو اچھا نہ تھا کیونکہ قومی ٹیم اپنے ابتدائی دونوں میچ ہار گئی ،لیکن اس کے بعد قومی ٹیم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے چاروں میچ جیت کر کواٹر فائنل میں جگہ بنا لی ۔کواٹر فائنل میں پاکستان کا مقابلہ آسٹریلیا سے تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک مضبوط اعصاب کے مالک کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم ہے اس کے علاوہ ان کی بیٹنگ ،بولنگ اور فیلڈنگ بھی دوسر ی ٹیموں کی نسبت کا فی مضبوط ہے۔لیکن ان سب کے باوجود شاہین پر عزم تھے کہ وہ کینگروز کو شکست دیں گے۔
اس میچ میں پاکستانی کپتان مصباح الحق نے ٹاس جیت کر پہلے خود بیٹنگ کر نے کا فیصلہ کیا، لیکن بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم کو ایک بار پھر اچھا اوپنگ سٹینڈ نہ مل سکا اور پہلے پانچ اور میں پاکستان کے دو مین بیسٹمین آوٹ ہو کر پولین لوٹ گئے ،اس کے بعد کپتان مصباح الحق اور حارث سہیل نے کافی حد تک گرتی ہوئی بیٹنگ لائن کو سہارا دیا لیکن یہ سہارا ذیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور کپتان مصباح الحق کے آوٹ ہو نے کے بعد کو ئی بھی کھلاڑی جم کر نہ کھیل سکا اور پاکستانی ٹیم کی وکٹیں خزاں کے بتوں کی مانند گرتی چلی گئیں۔
یوں 213 کے مجموعی سکور پر پاکستانی بیٹنگ کا قصہ تمام ہوا۔بیٹنگ میں تو پاکستانی بلے باز کوئی قابل ذکر بیٹنگ کے جوہر نہ دیکھا سکے ،اب باری تھی بولنگ کی توآسٹریلیا کی مضبوط بیٹنگ کے سامنے 213 رنز کا ہدف نسبتاً کم تھا ،یوں تو پاکستانی بولنگ کسی بھی ٹیم کی بیٹنگ لائن کے پڑ خچے اڑانے کی صلاحیت رکھتی ہے ،اور پاکستانی بالروں نے باولنگ کا آغاز بھی جار ہانہ انداز میں کیا اور 50 کے سکور پر تین آسٹریلین بلے بازوں کو پو یلن کی راہ دکھا دی ،لیکن پاکستانی باولر آسٹریلوی بلے بازوں کو سکور بنانے سے نہ روک سکے اور یو ں آسٹریلیا نے 34 او ر ز میں چار وکٹوں کے نقصان پر ہدف با آسانی حاصل کر لیا۔ پاکستان کی ہار میں حسب راویت پاکستانی فیلڈنگ نے بھی اہم کر دا ادا کیا اور فیلڈلرز نے دو آسان کیچ چھوڑے۔
قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کا شمار دنیائے کرکٹ کی بہترین ٹیموں میں ہو تا ہے اور قومی ٹیم کے کئی شہرا آفاق کھلاڑی دنیائے کرکٹ میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔لیکن پچھلے ایک عرصے سے قومی ٹیم کافی بحرنوں کا شکار ہے جن کی وجہ سے قومی ٹیم کی کارکردگی کافی متاثر رہی ہے ،پاکستان میں جاری دہشت گردی کی واقعات نے بھی پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور پچھلے کافی عرصے سے ملک میں انٹر نیشنل سطح پر کرکٹ میچوں کاا نعقاد نہیں ہو سکا اس کے علاوہ کر کٹ میں سیاسی مداخلت سے بھی قومی ٹیم کی کارکردگی پر کافی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ہمارے ملک میں دوسرے شعبوں کی طرح کھیل میں بھی سیاسی عمل ودخل ہے بلاخصوص کرکٹ میں سیاسی عمل و دخل بہت زیادہ ہے۔
ہر دور حکومت میں پی سی بی کے اندر عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی رہی ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ کھلاڑیوں کا چنائو بھی میرٹ پر نہیں ہو پاتا ۔بہر حال ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتا ہے کھیل کو ہمیشہ ایک کھیل کی ہی نظر سے دیکھنا چاہیے ۔شاہینوں نے اس ورلڈ کپ میں کافی حد تک اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا اور لگا تار چار میچ جیتے اگر پاکستانی ٹیم کواٹر فائنل بھی جیت جاتی تو قوم کی خوشی دو بالا ہو جاتی ، لیکن اس ہار پر قوم کو دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کے آئندہ پاکستانی ٹیم بہترین کھیل کا مظاہرہ کرے گی ،کیونکہ قومی ٹیم کے کھلاڑی ہمارے شاہین ہیں اور یہ شاہین کئی با ر دنیا میں ہمارے ملک کا نام روشن کر چکے ہیں ، اور ہمارے ان شاہینوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی کا کر دگی میں مذید بہتری لائیں کیو نکہ کڑوڑوں پاکستانی ان سے اچھی کار کردگی کی امید یں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں، بحر حال آخر میں ،میں اتنا ہی کہوں گا کہ ،شاہینوںتم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیا ر ہے۔
تحریر: ایم ایم علی