اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جوکہ پاکستانی اور بھارتی امریکی شہریوں کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بھارتی شہریوں کی نسبت پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کی ترقی پسند پالیسیوں کی وجہ سے ان کی حمایت کر رہی ہے۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق مالی طور پر خوشحال پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی تعداد دس لاکھ ہے۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کی اکثریت ڈونلڈ ٹرمپ کی کھلے عام اور خاموش حمایت کرتی ہے۔ اسکی بڑی وجہ جوبائیڈن کے ساتھ نائب صدر کی امیدوار کملا ہیرس ہیں جن کی والدہ ہندوستان سے تعلق رکھتی ہیں۔جوبائیڈن 78 سال کی عمر میں معمر ترین صدر ہوں گے جس وجہ سے نائب صدر کے طور پر کملا ہیرس بہت مضبوط نائب صدر ہوں گی اوران کی مضبوط پوزیشن سے امریکہ کی پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے پالیسی پر اثر پڑے گا۔ خبررساں ادارے نے امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کے حوالے سے بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنا دیں گے۔ پاکستانی برادری کا شکاگو، نیویارک، واشنگٹن ڈی سی کے آس پاس کے علاقوں اور لاس اینجلس میں اثر و رسوخ ہے ۔صدر ٹرمپ اپنے پہلے دور صدارت کے آغاز میں اپنی سخت پالیسیوں کے سبب مسلمانوں میں غیر مقبول تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اقدامات مسلمانوں اور پاکستان کے حق میں جانا شروع ہوئے اور انکی موجودہ پالیسیاں پاکستان کے لیے اچھی ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکیوں کے مطابق ’ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔‘
‘اگر ٹرمپ جیتے نہیں تو آپ میرے یہ الفاظ یاد رکھنا، امریکہ میں تقسیم اور نفرت بڑھے گی۔‘
یہ کہنا ہے کہ امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے 40 کلومیٹر دور ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹیمور میں رہنے والے ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری شاداب قرنی کا۔
شاداب ایک ریٹائرڈ بینکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’اگر آپ امریکہ کی نظر سے ٹرمپ کی باتیں دیکھیں تو آپ کو وہ پسند آئیں گی مگر اگر آپ کے ذہن میں پاکستان یا انڈیا ہے تو آپ کو برا لگے گا اور آپ ان سے نفرت کریں گے۔‘
شاداب ایک ریپبلکن ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو پھر سے عظیم بنا دیں گے۔ وہ سنہ 1988 میں امریکہ آئے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی یہیں پر بنا لی۔
پاکستانی برادری کا شکاگو، نیویارک، واشنگٹن ڈی سی کے آس پاس کے علاقوں اور لاس اینجلس میں اثر و رسوخ ہے مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ تعداد میں کمی کی وجہ سے یہ الیکشن کے نتائج پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتے۔پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی اکثریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن اور کملا ہیرس کے حامی ہیں۔ شاداب قرنی اس بات سے پریشان نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک امریکی شہری کی طرح سوچتا ہوں۔ ‘مگر ہم اگر انڈیا، پاکستان، فلسطین، کشمیر وغیرہ کا سوچیں گے تو بہت مسائل ہوں گے۔‘
شاداب کے خیال میں ٹرمپ نے ریپبلکن پارٹی میں نئی جان پھونک دی ہے۔ ‘ٹرمپ ایک روایتی ریپبلکن نہیں ہیں۔ ان کے پاس معیشت اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے کچھ اچھے خیالات ہیں۔‘ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی نژاد امریکی برادری میں ٹرمپ کے حامی لوگ ڈھونڈا آسان نہیں۔ صدر ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ نسل پرست ہیں، جھوٹے ہیں، لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں اور سفید فام پرستوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کی اسرائیل کی حمایت، پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی اور کچھ مسلمان ممالک سے امیگریشن پر پابندی کی وجہ سے مسلم برادری میں لوگ انھیں اچھا نہیں سمجھتے۔ صدر ٹرمپ پر یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے کورونا وائرس کی وبا پر قابو نہیں پایا جس کی وجہ سے امریکہ میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کے کام کرنے کا انداز اور الفاظ کا چناؤ بھی بہت سے لوگوں کو برا لگتا ہے۔ پھر ٹرمپ کی حمایت کیوں کی جائے؟
کیونکہ ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ اور پاکستان دونوں کے لیے اچھے ہیں۔
کملا ہیرس کا انڈیا سے تعلق بہت سے لوگوں کے لیے بائیڈن کی حمایت چھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ فیڈرک ایس پاردی سکول گلوبل سٹڈیز کے ڈین پروفیسر عادل نجم کہتے ہیں کہ پاکستانی نژاد امریکی شہری عموماً ریپبلکن پارٹی کے حامی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ پارٹی پاکستان کے لیے بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ پارٹی کے ٹیکس کے حوالے سے نظریات، فیملی اقدار، معاشی اور سماجی قدامت پسندی کو بھی پسند کرتے ہیں۔
پروفیسر عادل کا کہنا ہے کہ تاہم 9/11 کے بعد ان میں سے بہت سے ڈیموکریٹک کیمپ میں چلے گئے۔ ‘ان کی مسلم شناخت اور زیادہ اہم ہو گئی۔ جیسے کہ اہلان عمر کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں مگر انھیں پاکستانی نژاد امریکی برادری سے بہت توجہ ملتی ہے۔‘
ٹرمپ مسلم مخالف نہیں!
سنہ 2015 میں ٹرمپ نے کہا کہ تمام مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی ہونی چاہیے۔ دو سال بعد بطور صدر انھوں نے چھ مسلمان اکثریتی ممالک سے آنے والوں پر پابندی لگا دی۔ انھوں نے ان اقدامات کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے اہم قرار دیا۔ ان کے اس اقدام کی وجہ سے فیملیوں کو مشکلات کا سامنا رہا اور انھیں مسلم مخالف کہا گیا مگر ریاست کنٹکی کے شہر ڈین ویل میں مقیم ڈاکٹر فتح شہزاد کے خیالات کچھ مختلف ہیں، جو سنہ 1994 میں پاکستان سے امریکہ آئے تھے۔ ڈاکٹر شہزاد کہتے ہیں ’ٹرمپ کا خیال تھا کہ شام جیسے مسلم ممالک سے آنے والے مسلمان یہاں پر مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ ایسا ماضی میں ہوا ہے جب مسلمان پناہ گزینوں نے مسائل پیدا کیے ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں ’اس پابندی کا مقصد یہ تھا کہ آنے سے پہلے ان کی درست طریقے سے جانچ کر لی جائے۔ یہ ایک خیال پیدا کیا گیا کہ یہ سب مسلم مخالف تھا مگر ایسا نہیں۔‘ شاداب قرنی نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں ٹرمپ کے کردار کا بھی ذکر کیا۔ وہ کہتے ہیں ’متحدہ عرب امارات ایک مسلمان ملک ہے۔ انھی مسلمان ممالک نے مودی جی کو پھولوں کے ہار پہنائے۔ دنیا بدل رہی ہے اور ٹرمپ اس کے ساتھ بدل رہے ہیں۔‘
ٹرمپ پاکستان کے لیے اچھے ہیں
ڈاکٹر فتح شہزاد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان کے لیے اچھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔‘
‘گذشتہ تین سال سے قانون کی صوتحال بہتر ہو گئی ہے اور بم حملے رک گئے ہیں۔ پاکستان کا افغانستان میں کردار بہتر ہوا ہے کیونکہ افغانستان سے آنے والی دہشتگردی کی کوششیں کم ہوئی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں ‘ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی کی افغانستان میں فوجیوں کو کم کرنے کی پالیسی اور مقامی لوگوں کو اختیار دینے ٹرمپ کا مثبت کردار ہے۔‘
اس کے علاوہ خیال کیا جاتا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھی ٹرمپ سے جو ہو سکا انھوں نے کیا۔
‘ٹرمپ نے اس حوالے سے مصالحت کرنے کی پیشکش کی مگر ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب انڈیا اور پاکستان راضی ہوں مگر انڈیا نے انکار کر دیا۔ اسی لیے وہ یہ کردار ادا نہیں کر سکے۔‘
پروفیسر عادل نجم کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو عمران خان کے قریب سمجھا جاتا تھا مگر مودی کے امریکہ کے دورے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کا مودی سے رشتہ ایک اور سطح پر ہے۔ ‘امیگریشن پر تنقید درست نہیں‘
ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں پر شدید تنقید کی جاتی ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران امیگریشن پر ان کے اقدامات پر بھی تنقید کی گئی تاہم انھیں ان لوگوں کی حمایت حاصل تھی جو امیگریشن روکنا چاہتے ہیں۔
شاداب قرنی کہتے ہیں ’امیگریشن کا یہ مطلب نہیں کہ سرحدیں کھول دی جائیں۔‘
‘جب انھوں نے سرحد پر دیوار کی بات کی تو یہ مسلمانوں کے لیے تو نہیں تھی۔ کیا انڈیا اور پاکستان میں سرحدیں اتنی کھلی ہیں کہ کوئی بھی داخل ہو جائے۔ اس کے لیے کوئی پروٹوکول تو رکھنا ہے۔ وہ اس چیز کی بات کر رہے ہیں۔‘
‘کورونا پر ٹرمپ مجبور تھے‘
دنیا میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ اموات امریکہ میں ہوئی ہیں اور صورتحال پر ابھی بھی قابو نہیں پایا گیا مگر ٹرمپ کے حامی کہتے ہیں کہ سارا قصور ان کا نہیں۔
ڈاکٹر گوہر سلام کہتے ہیں ‘کورونا ایک ایسا خطرہ تھا جس کے لیے درست سکرپٹ لکھنا مشکل تھا۔‘
ڈاکٹر گوہر ریاست انڈیانا میں کام کرتے ہیں اور سنہ 1992 میں کراچی سے امریکہ آئے تھے۔
‘ہمیں ایک لاک ڈاؤن لگانا چاہیے تھا اور لوگوں کو ماسک پہننے کو کہنا چاہیے تھا۔‘
ڈاکٹر شہزاد کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کورونا پر کوئی توجہ نہیں دی مگر ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔
‘ہر ریاست کے اپنے قوانین ہیں اور قانون پر عمل کروانے کا اختیار گورنر کے پاس ہوتا ہے۔ صدر کے پاس چین جیسا لاک ڈاؤن لگانے کا اختیار نہیں۔ اس پر ٹرمپ کو ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں۔‘
‘لوگوں نے قواعد فالو نہیں کیے۔ بہت سے لوگ ماسک نہیں پہنتے۔ میرے کچھ مریض کہتے ہیں کہ وہ ویکسین نہیں لیں گے اگر آ بھی جائے۔ اگر ٹرمپ نے ماسک پہننا ہوتا تو اس کا مثبت اثر ہوتا۔ انھیں عوامی سطح پر ماسک پہننا چاہیے۔‘کملا ہیرس کا انتخاب
کملا ہیرس کی والدہ انڈیا میں پیدا ہوئی تھیں اور کچھ پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے لیے یہ ایک اہم عنصر ہے۔
ڈاکٹر گوہر کہتے ہیں ‘اگر بائیڈن منتخب ہوتے ہیں تو 78 سال کی عمر میں وہ معمر ترین صدر ہوں گے۔ اسی لیے نائب صدر کے طور پر کملا ہیرس بہت مضبوط نائب صدر ہوں گی۔‘
خوف اس بات کا ہے کہ ان کی مضبوط پوزیشن سے امریکہ کی پاکستان اور کشمیر کے حوالے سے پالیسی پر اثر پڑے گا۔
پاکستانی امریکن پولیٹیکل ایکشن کمیٹی کے ڈاکٹر راؤ کامران علی کے خیال میں کملا کی شخصیت صدارتی نہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘ہم بائیڈن کے لیے ووٹ ڈالیں گے مگر ٹرمپ نے بہت سی اچھی چیزیں بھی کی ہیں۔‘
ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ نسل پرست نہیں ہیں اور پاکستانی نژاد امریکی برادری کو بغیر سوچے سمجھے ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ ایک حامی کا کہنا تھا کہ ’آپ اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہ ڈالیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ شہروں میں مظاہروں، لوٹ مار اور اس حوالے سے ڈیموکریٹک ردعمل پر پریشان ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مظاہرین کے مقاصد اور ان کے مالی وسائل پر سوال اٹھاتے ہیں۔
شاداب قرنی کہتے ہیں ’یہ وہ قوتیں ہیں جو منقسم کر رہی ہیں۔‘
ڈاکٹر سلام کہتے ہیں ‘سوشلزم کی بات کرنا اچھی بات ہے مگر ہم نے سیکھا ہے کہ سوشلسٹ ممالک ناکام ہو جاتے ہیں۔ سب لوگوں کو سٹائیپنڈ دینی کی بات اچھی ہے مگر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ یہ تو تب ہوتا ہے جب معیشت اچھی چل رہی ہو۔‘
شاداب قرنی کہتے ہیں ‘ڈیموکریٹک پارٹی کی جن شہروں میں حکومت ہے ان کا برا حال ہے کیونکہ ان میں کوئی احتساب نہیں۔‘
ٹرمپ کے حامیوں کو اپنی برداری میں اکثر تنہا کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد کو ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں ‘تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے، تم بدل گیے ہو، تم پاکستان کے بارے میں نہیں سوچتے۔‘
پروفیسر عادل کہتے ہیں ‘جن پاکستانیوں نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو کہتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے حامی ہیں۔‘
ڈاکٹر شہزاد کہتے ہیں ‘میں ٹرمپ کے ناقدین سے کہتا ہوں کہ مجھے کوئی بہتر متبادل بتاؤ۔ ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان کے لیے اچھی پیں۔ انھوں نے پاکستان پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں۔ وہاں پر امن ہے، مالی معاونت ہے، عسکری تعاون ہے۔ یو ایس ایڈ کے ذریعے امریکی سفارتخانہ وہاں کسانوں کی مدد کر رہا ہے۔ طلبہ کو وظیفے مل رہے ہیں۔ ہزاروں طلبہ آتے ہیں اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کی پالیسیاں پاکستان کے لیے اچھی ہیں۔