پاکستانی بیوروکریسی 100 دن گزرنے کے بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں بعض سنگین نوعیت کے تحفظات کے باعث سست رفتاری یا ’گو سلو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جسے وزیراعظم عمران خان نے عدم تعاون کا نام دیا ہے ۔ گذشتہ ماہ اخبار اور میڈیا مالکان کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے صاف صاف کہا تھا کہ بیوروکریسی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی اسلام آباد کے مختلف محکموں اور اداروں میں کام کرنے والے بعض سینیئر افسران نے وزیراعظم کی جانب سے عدم تعاون کے شکوے سے اس حد تک اتفاق کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں چلنے والی سرکاری فائلوں کی رفتار نئی حکومت کے آنے کے بعد سے سست ہو چکی ہے۔کابینہ ڈویژن میں کام کرنے والے ایک افسر نے اس سست رفتاری کو وفاقی افسران کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ’گو سلو‘ کی اس پالیسی کا سب سے بڑا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ جہاں ہر کابینہ اجلاس میں بیس سے پچیس ایجنڈا آئٹم ہوا کرتے تھے، گذشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں چار پانچ موضوعات ہی زیر بحث آ پاتے ہیں۔بیوروکریسی یا افسر شاہی کو عمران خان کی حکومت کے درمیان اس خلیج کی بنیادی وجہ سرکاری افسران میں عدم تحفظ کا احساس ہے جس کی بعض بہت ٹھوس وجہ بھی موجود ہیں وفاق میں حکومت سنبھالنے سے پہلے عمران خان بار بار کہتے رہے کہ وہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کر دیں گے اور اس موقعے پر وہ ہر بار صوبہ خیبر پختونخوا کی مثال دیتے رہے
جہاں ان کے بقول پولیس سیاسی اثر سے آزاد ہو کر خالصتاً میرٹ پر کام کر رہی ہے۔ لیکن اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت سنبھالنے کے بعد پنجاب اور اسلام آباد کے پولیس سربراہان کی اچانک برطرفیوں کا سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور انہیں سیاسی مداخلت کی بدترین مثالیں قرار دیا۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی عہدے سے اچانک برطرفی کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو سرکاری افسران کی تشویش میں اضافہ کر دیا۔ انھوں نے اسلام آباد کے آئی جی پولیس کی جانب سے ایک وفاقی وزیر کا فون نہ سننے اور ان کے ’حکم‘ کی تعمیل نہ کرنے پر عہدے سے ہٹائے جانے کا دفاع کرتے کہا ’ایک آئی جی کیسے کسی وفاقی وزیر کا فون نہیں اٹھا سکتا؟ بیوروکریسی نے کام نہیں کرنے تو الیکشن کا فائدہ کیا؟ وزیراعظم آئی جی نہیں ہٹا سکتا تو الیکشن کیوں کروائے جاتے ہیں؟ اگر ملک بیوروکریسی نے ہی چلانا ہے تو چار افسر اوپر لگاتے ہیں چار نیچے اور ہم گھر چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ معاملات تھے جو میڈیا کی زینت بنے لیکن پچھلے تین ماہ میں ملک بھر میں سرکاری افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کے بیسیوں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن پر بیوروکریسی میں تشویش پائی جاتی ہے۔
وفاقی اور صوبائی سطح پر کام کرنے والے بہت سے افسران نے وزیراعظم سے شکایت کی ہے کہ نیب اہلکار انھیں بدعنوانی کی تحقیقات اور تفتیش کے نام پر ہراساں کر رہے ہیں۔ اس معاملے کا اہم نکتہ نیب قانون کے تحت نیب حکام کو ملنے والے اختیارات ہیں جو انھیں کسی بھی سرکاری افسر پر شک ہونے کی صورت میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کرنے اور ان کے دفاتر اور گھر پر چھاپے مارنے سے متعلق ہیں۔ ان افسران کا کہنا ہے کہ نیب افسران بدعنوانی اور بے قاعدگی میں فرق سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نیک نیتی سے کیے گئے بعض فیصلوں کو بھی بدعنوانی کے طور پر لے رہے ہیں جس سے افسران میں کام کرنے کا شوق ختم ہو رہا ہے۔ اس معاملے سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم نے ان افسران کے مطالبات کے نتیجے میں نیب کے قانون میں بعض ترامیم کی ہدایت کی ہے جس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ نیب کے لیے سرکاری افسران پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس معاملے کا ایک اور بہت اہم پہلو نیب کا گرفتار افسران فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی ہے۔ وفاقی اور صوبائی افسران کے حلقوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ
نیب لاہور کے دفتر میں ان دونوں افسروں کو مبینہ طور پر ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے اہل خانہ اور خواتین کو بھی مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا ہے بیوروکریسی میں ان دونوں افسران کے ساتھ اس سلوک پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں کیونکہ ان دونوں کے بارے میں یہی رائے پائی جاتی ہے کہ ان افسران سے شاید کوئی بےقاعدگی تو ہوئی ہو لیکن بدعنوانی کا کوئی ٹھوس ثبوت ابھی تک سامنے نہیں آ سکا ہے۔ الیکشن جیت کر حکومت بنانے والے سیاسی رہنماؤں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سرکاری افسران کے درمیان کشیدگی اور ایک دوسرے کے خلاف شکایات سامنے آنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے لیکن اس بار حالات کچھ مختلف ہیں۔ وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے دفتر کے ساتھ رابطے میں رہنے والے بعض افسران نے شکایت کی ہے کہ وزیراعظم کے دفتر میں تعیناتی سیاسی افراد اور بعض وزرا ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور انہیں وہ عزت نہیں دی جا رہی جس کا وہ استحقاق رکھتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ بات وزیراعظم کے نوٹس میں بھی لائی گئی ہے کہ ان کے بعض معاونین خصوصی افسران کے ساتھ عمومی طور پر ناخوشگوار لہجے میں بات کرتے ہیں اور ایسا تحکمانہ انداز استعمال کرتے ہیں
جو ان کے منصب کے شایان شان نہیں ہے۔ ان میں سے بعض افسران نے تو خود وزیراعظم کے رویے کی بھی شکایت کی ہے۔ ان افسران کو تواتر کے ساتھ ’تم‘ کہہ کر مخاطب کیے جانے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ تجربہ کار سیاستدان جب حکومت میں نہیں بھی ہوتے تو بھی ان کے سرکاری افسران کے ساتھ اس طرح کے رابطے ہوتے ہیں کہ انھیں نہ صرف ’اندر‘ کی خبریں مل رہی ہوتی ہیں بلکہ حکومت میں آتے ہی یہی افسر سیاسی حکومت کے قریبی افسروں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اس بار نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں ہو سکا بلکہ موجودہ حکومت نے اس کام کے لیے جن افسران کو اہم عہدوں پر لگایا وہ سیاسی حکومت اور بیورکریسی میں قربت یا غیررسمی تعلقات پیدا کرنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کا اسلام آباد کی بیوروکریسی میں ’نیٹ ورکنگ‘ کا نہ ہونا ہے ۔ اسلام آباد میں اہم ترین سرکاری افسر ہونے کے باوجود اعظم خان کا حلقہ اثر اتنا وسیع نہیں ہو سکا کہ وہ ’وفادار‘ افسران کی ایک ٹیم تیار کر لیتے جو تحریک انصاف کی حکومت کو سپورٹ فراہم کرتی۔
اس کی ایک وجہ اعظم خان کا اسلام آباد میں اس سے پہلے اہم عہدوں پر تعینات نہ رہنا بھی بتائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے بیشتر وفاقی وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی پہلی بار ان اہم ریاسی مناصب پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ناتجربہ کاری ان کی اپنے محکمے کے افسران کے ساتھ کشیدگی کا اس وقت باعث بنتی ہے جب وہ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ قواعد کی رو سے وہ یہ حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتے بلکہ یہ کام تو ایک کمیٹی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ بعض وفاقی وزرا اور مشیروں کے ساتھ کام کرنے والے ایک سینیئر افسر کے بقول، تحریک انصاف کے حکومت میں شامل رہنما سرکاری کاموں کو ’غیر روایتی‘ طریقے سے کرنے کے شوق میں قواعد سے رو گردانی کرتے ہیں اور بیوروکریسی سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں جو ظاہر ہے جب پوری نہیں ہوتی تو گلے شکوے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس افسر کے بقول جو جملہ انھیں ان وزرا سے اکثر سننے کو ملتا ہے وہ ہے ’نئے پاکستان میں ایسے نہیں چلے گا‘۔ اب ان وزرا کو کون بتائے کہ پاکستان تو شاید نیا بن گیا ہے لیکن حکمرانی کے قواعد یعنی رولز آف بزنس وہی پرانے ہیں جو برطانوی افسر شاہی نے تحریر کیے تھے۔