شاید ڈھاکا میں آئی سی سی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا کوئی میچ تھا، اختتام پردھماکوں کی آواز سے میں چونک گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، مجھے پریشان دیکھ کر ساتھ بیٹھے بنگلہ دیشی صحافی نے کہا ’’ ڈرو نہیں یہ فائر ورکس ہیں‘‘،پھر وہ طنزیہ انداز میں کہنے لگا’’ ویسے تم تو پاکستانی ہو وہاں آئے دن دھماکے ہوتے رہتے ہیں، لہذا چونک کیوں گئے تم لوگوں کو تو ان کا عادی ہونا چاہیے‘‘۔
ان دنوں ہمارے ملک کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے ،مجھے اس کی بات سن کر غصہ آیا مگر پھر تحمل سے کام لیتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ایسا نہیں ہے کہ پورے پاکستان میں دھماکے ہوتے ہیں، کبھی کبھی کہیں ایسا ہو جاتا ہے مگر ہماری سیکیورٹی ایجنسیز محنت کر رہی ہیں۔
یہ سلسلہ انشا اللہ جلد ختم ہو جائے گا‘‘ بعد میں ایسا ہی ہوا اور اب ملکی حالات کافی بہتر ہیں مگر اب بھی بیرونی دنیا میں پاکستان کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہاں کبھی بھی دھماکا ہو سکتا ہے یا گولیاں چل سکتی ہیں، ہم پاکستانی بھی انسان ہیں اور ان چیزوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں مگر ملک سے باہر ایسا نہیں سمجھا جاتا، جیسا کہ ہماری کرکٹ ٹیم کے ساتھ ابھی زمبابوے میں ہوا، وہاں بولاوایو میں گذشتہ ماہ ہی صدارتی ریلی میں دھماکا ہوا جس میں 2 افراد ہلاک اور 49 زخمی ہوئے۔
آسٹریلوی ٹیم نے دورے پر نظرثانی کا عندیہ دیا مگر ٹرائنگولر سیریز کے تمام میچز چونکہ ہرارے میں ہونے تھے، اس لیے اضافی سیکیورٹی کی شرط پر ٹور پر آمادہ ہو گئی، ہمارے بارے میں تاثر یہ ہے کہ پلیئرز فولاد کے بنے ہوئے ہیں، کسی بات سے نہیں ڈرتے اس لیے بورڈ نے پوچھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی اور زمبابوے بھیج دیا۔
اب وہاں جا کرجب مقامی لوگوں سے کھلاڑیوں کی بات چیت ہوئی تو انھیں اندازہ ہوگیا کہ رواں ماہ کے اواخر میں شیڈول انتخابات کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں، بعض کرکٹرز نے جب یہ ذکر چھیڑا تو اپنوں نے ہی مذاق اڑایا، پھر سیکیورٹی منیجر کرنل (ر) اعظم بولاوایو معاملات کا جائزہ لینے گئے، ہرارے سے وہاں جانے میں بس سے پانچ گھنٹے اور جہاز سے45 منٹ لگتے ہیں، 6 بجے پاکستانی ٹیم کی فلائٹ تھی کھلاڑی ایئرپورٹ جانے کیلیے تیار بیٹھے تھے کہ انھیں روک دیا گیا، وجہ یہ بتائی کہ میزبان بورڈ نے ہوٹل کا کرایہ نہیں دیا لہذا کمرے دستیاب نہیں، پھر یہ طے ہوا کہ میچ سے ایک دن قبل ٹیم بولاوایو جائے گی۔
اصل بات یہ تھی کہ زمبابوے خود کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں تھا لہذا اس نے مناسب یہی سمجھا کہ مہمان ٹیم کو مزید چند روز ہرارے میں ہی رکھا جائے،پاکستانی کھلاڑیوں نے ون ڈے سیریز ہرارے منتقل کرنے کی درخواست بھی کی تھی مگر بورڈ نے کہا کہ ’’ایم او یو کے تحت ہم بولاوایو میں ہی کھیلنے کے پابند ہیں‘‘، ہوٹل والی تاویل سمجھ نہیں آتی۔
زمبابوین بورڈ کے پاس ہرارے میں ہوٹل کا کرایہ دینے کے پیسے ہیں مگر بولاوایو میں نہیں، یہ کیا بات ہوئی،اگر مالی مسئلہ تھا تو اگلے دن تک حل ہو جاتا میچ سے ایک روز قبل ہی کیسے کمرے ملیںگے؟ کرنل (ر) اعظم ٹیم کی روانگی سے پہلے کیوں بولاوایو گئے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ہوٹل میں کمرے ایک دن پہلے نہیں کئی ماہ قبل بک کرائے جاتے ہیں، کوئی بھی ہوٹل والا ایسا نہیں کر سکتا کہ عین وقت میں مہمان ٹیم کو آنے سے روک دے،زمبابوے بورڈ کے یقیناً مالی مسائل ہیں مگر سیکیورٹی ایشو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، زمبابوین ٹیم چونکہ مشکل وقت میں پاکستان آئی لہذا پی سی بی نے دورے سے اس کا احسان چکایا، ایسا کرنے میں کوئی قباحت بھی نہیں لیکن کھلاڑی اگر کہہ رہے ہیں کہ میچز ہرارے منتقل کیے جائیں تو ان کی بات سننی چاہیے تھی، ہمارے کرکٹرز کی بھی فیملیز ہیں انھیں بھی سیکیورٹی پر تشویش ہوتی ہے لہذا اگر کبھی کوئی شکایت کریں تو اسے اہمیت دیں۔ احسان اتارنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ پی سی بی کے تمام اعلیٰ حکام اپنے اہل خانہ کے ساتھ زمبابوے آئیں اور ٹیم کے ساتھ ہی رہیں۔
انگلینڈ یا آسٹریلیا کا دورہ کرنے کیلیے تو لڑائیاں ہوتی ہیں یہاں کوئی آنے کو تیار نہیں، انٹرنیشنل کرکٹ کا شعبہ جن لوگوں نے سنبھالا ہوا ہے انھیں کرکٹ کی ’’سی‘‘ کا بھی علم نہیں،وہ ٹویٹر پر فٹبال میچز پر تبصرہ کرتے ہی نظر آتے ہیں، انھیں کچھ اپنی ٹیم کی بھی خبر لینی چاہیے، زمبابوے میں سہولتوں کا فقدان ہے، ابتدا میں پریکٹس کے حوالے سے بھی کھلاڑیوں نے شکایت کی تھی جس پر میزبان بورڈ نے مین گراؤنڈ میں مشق کی اجازت دے دی ۔ بورڈ حکام کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جہاں ٹور کیلیے جا رہے ہیں وہاں کے حالات کیسے ہیں۔
آسٹریلیا، انگلینڈ حتیٰ کہ بھارت تک سیریز سے قبل جائزہ ٹیم بھیجتا ہے البتہ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان نے حالیہ دورے سے قبل ایسا کیا، ابھی یو اے ای میں سیریز ہونی ہے آپ دیکھیے گا آفیشلز ایسے آتے جاتے رہیںگے جیسے لاہور سے ملتان جا رہے ہیں،ہم جب تک خود اپنے کھلاڑیوں کو عزت نہیں دیں گے دوسرے بھی ایسا نہیں کریں گے، یہ سوچ کہ پاکستانی ہیں لہذا سیکیورٹی خدشات نہیں ہوسکتے درست نہیں، ہمارے کرکٹرز بھی عام انسان ہیں۔ ان سے پوچھیں کہ آپ کو کوئی مسائل تو نہیں اگر وہ کچھ کہیں تو ازالے کی کوشش کریں۔
زمبابوے سے پانچ ون ڈے کی سیریز کا پاکستانی ٹیم کو کوئی فائدہ نہیں ہونا،البتہ مالی مسائل کے شکار میزبان بورڈ کی کچھ مدد ہو جائے گی، زمبابوین اسکواڈ کے پاکستان آنے سے بھی ہمیں غیرملکی ٹیموں کو سیکیورٹی پر قائل کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملے گی،مالی منافع کا تو سوال ہی نہیں ہے، مناسب یہی ہو گا کہ جونیئر ٹیموں کو ایسے ممالک بھیجا جائے، اس سے نئے کھلاڑیوں کو کچھ سیکھنے کا چانس تو ملے گا، البتہ ٹیم سینئر ہو یا جونیئراس کیلیے انتظامات اعلیٰ معیار کے ہونے چاہئیں کیونکہ پاکستانی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ تو جو بھی کر دو چلے گا۔