رپورٹ: واجدمسعودقاضی
ہولی فیملی ہسپتال میں ساڑھے 5گھنٹے کی کامیاب سرجری کے بعد 6 ماہ کی ریڑھ کی ہڈی سے جڑی میرب اور مناہل کو ایک دوسرے سے الگ کردیا گیا، سرجنز کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ سرجری تھی جس میں مختلف شعبہ جات نے حصہ لیا۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے ایک اور سنگ میل عبور کرلیا- جڑواں بچوں کے پیدائشی جڑے ہوئے دھڑ کامیابی سے الگ کر کے تاریخ رقم کردی-
میرب اور مناہل 6 ماہ قبل ہولی فیملی اسپتال میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان دونوں خوبصورت بچیوں کے جسم ریڑھ کی ہڈی اور مقعد ایک دوسرے کے ساتھ منسلک تھے۔
ڈاکٹروں نے ان کے مسئلے کو پائیگوپاگس کونجائنڈ ٹوئنس کی حیثیت سے تشخیص کیا۔
ان بچیوں کے دھڑ ریڑھ کی ہڈی اور مقعد کی نالی منسلک ہونے کی وجہ سے ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ٹیم نے ان کے آپریشن کرکے دھڑ الگ کرنے کا منصوبہ بنایا اور آپریشن پر غور کیا گیا۔
جس کے بعد ہولی فیملی ہسپتال میں یہ اہم آپریشن کیا گیا-
ڈاکٹر احمد، ڈاکٹر عائشہ پر مشتمل اینستھیزیا ٹیم نے پروفیسر جواد ظہیر کی سربراہی میں مریضوں کو اینستھیزیا دیا۔
اس آپریشن میں ڈی ایچ کیو اسپتال راولپنڈی کی نیورو سرجری ٹیم نے اہم کردار ادا کیا۔
نیورو سرجری کی ماہر ٹیم، جس میں پروفیسر ندیم اختر کی سربراہی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر یاسر شہزاد اور سینئر ریذیڈنٹ ڈاکٹر مدثر عباس صدیقی نے ریڑھ کی ہڈی کو کامیابی کے ساتھ الگ کرکے اس کی تشکیل نو کر دی۔
آپریشن کے بعد جب بچے انستھیزیا سے باہر آئے تو دونوں کے نچلے اعضاء حرکت میں آرہے تھے جو ظاہر کرتا ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔
ڈاکٹر مدثر گوندل کی سربراہی میں ڈاکٹر اسامہ اور ڈاکٹر جواد پر مشتمل پیڈیاٹرک سرجری ڈیپارٹمنٹ ہولی فیملی ہسپتال نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹروں کی ٹیم نے مریضوں کو دوبارہ چیک کر کے دونوں بچیوں کی حالت بہتر قرار دی اور جلد تندرست ہوجانے کی امید کا اظہار کیا-
آپریشن تقریبا ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہا جس کا نتیجہ حیرت انگیز تھا۔
آپریشن کے دوران ڈاکٹروں نے کامیابی کے ساتھ بچیوں کو الگ کیا اور مقعد کی نالی ٹھیک کردی-
راولپنڈی اور گردونواح کے علاقوں کی عوام کے لئے یہ بہت خوش آئند ہے کہ ہنرمند، پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے حامل سرجن ان کی خدمت کے لئے موجود ہیں۔
پیڈیاٹرک سرجن ڈاکٹرمدثر گوندل کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشکل ترین سرجری تھی جس کی پلاننگ 2 ماہ سے جاری تھی، اس سرجری میں ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات کے طبی عملے نے حصہ لیا، ڈاکٹر مدثرگوندل کا کہنا تھا کہ پہلے بچوں کی مختلف تصاویر لے کر تھری ڈی امیج کے ذریعے سے جائزہ لیا گیا۔
سرجن ڈاکٹر مدثر گوندل نے بتایا کہ بچوں کے دھڑ کو الگ کرنا کسی چیلینج سے کم نہیں تھا، مربوط منصوبہ بندی اور ڈاکٹروں کی مہارت سے یہ کامیاب سرجری ممکن ہوئی، اس قسم کی سرجریز کیلئے مالی اور انسانی وسائل درکار ہوتے ہیں اور 6 ماہ کے بچوں کو جڑے ہوئے دھڑ سے الگ کرنا سرجری کا کمال ہے۔
میرب اور مناہل کے والد کا کہنا تھا کہ بچیوں کی پیدائش کے بعد کچھ پریشان تھا لیکن اللہ نے بچوں کی جان بچانے کیلئے اسباب پیدا کئے اور بچوں کی کامیاب سرجری کی گئی۔ ان کی جڑواں بچیاں ایک دوسرے سے پیوستہ حالت میں پیدا ہوئی تھیں، گزشتہ روز ہولی ہسپتال میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کی کامیاب سرجری کی گئی۔ میرب اور مناہل کا تعلق ایک دوسرے سے پیوستہ جڑواں بچوں کی قسم پائیگوپاگس کونجائنڈ ٹوئنس سے تھا، جس میں دونوں بچوں کے اجسام کمر سے جڑے ہوتے ہیں اور کچھ اندرونی غدود ان میں شامل ہوتے ہیں۔
جڑواں بہنوں میں مقعد کا کچھ حصّہ جڑا ہوا تھا۔ ان کے والد کے الفاظ یہ تھے کہ “یہ ہمارے لئے ایک بہت ہی چیلنجنگ سفر تھا۔ ہولی فیملی ہسپتال آنے سے پہلے، میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میرب اور مناہل ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں۔ اس خواب نے مجھے ایک امید دلائی”۔
ان بچیوں کے والد نے ان واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو انہیں ہولی فیملی ہسپتال تک لائے، “میرا خاندان اور میں اس بات کے قائل تھے کہ ہسپتال اور علاج صرف امیروں کیلئے ہیں اور ہمارے لئے علاج حاصل کرنے کا کوئی بھی امکان نہیں ہے لیکن میرے اللہ نے ہولی فیملی ہسپتال کو میرے بچوں کا نجات دہندہ بنادیا۔ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ اخراجات کیلئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ ان کا علاج سرکاری ہسپتال سے کیا جائے گا”۔
ایک دوسرے سے پیوستہ جڑواں بچوں کا پیدا ہونا، شاذونادر ہی ہونے والی ایک پیدائشی بے قاعدگی ہے جس میں 250000 پیدائشوں میں سے کوئی ایک واقعہ پیش آتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب رحم مادر میں جڑواں بچوں کو تشکیل دینے کیلئے جنین کامیاب طور پر الگ نہیں ہوتا۔ باوجود اس کے، اس پیوستگی کی کوئی معلوم وجہ نہیں ہے۔ اس کی تشخیص حمل کے ابتدائی دور میں کی جاسکتی ہے۔ سرجری پیوستہ جڑواں بچوں کو علیحدہ کرنے کا واحد طریقہ ہے، جبکہ یہ تمام کیسوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرجری کی پیچیدگی اور سرجری کے بعد بقاء کی شرح کا انحصار بنیادی طور پر جڑے ہوئے مقامات پر اور اندرونی طور پر جڑے ہوئے غدود کی قسم اور تعداد پر ہوتا ہے۔
اس مشکل سرجری کو سرانجام دینے کیلئے ماہرین کی ایک کثیر المقاصد ٹیم بہت ہی باریک بینی سے منصوبہ بندی کرنے کیلئےسر جوڑ کر بیٹھی۔ ان ٹیموں کے دیگر فعال شرکاء کے ساتھ ساتھ، پیڈرئیٹک سرجری، انستھیسیولوجی اور ریڈیولوجی سے اور احتیاط کے طور پر گیسٹرو انٹیسٹینل سرجری اور نیورو سرجری سے تیار ڈاکٹرز، نرسیں اور ٹیکنیشیئنز شامل تھے۔ اس سرجری کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں تمام ٹیموں کو مسلسل انجام دہی کیلئے نظم و نسق کیلئے اور دونوں زندگیاں بچانے کیلئے وسائل کی دگنی مقدار کی ضرورت پیش آتی ہے۔
سرجری سے قبل، پیوستگی کی حالت کو مکمل طور پر سمجھنے کیلئے درکار مہارت اور وسائل کی ضروری تنظیم ثانی کیلئے ایک جدید امیجنگ اور سہ ابعادی پروٹوٹائپنگ استعمال کی گئی تھی۔
ہولی فیملی ہسپتال کے پیڈرئیٹک سرجن ڈاکٹر مدثر گوندل نے اس ساڑھے 5 گھنٹے طویل سرجری کیلئے کی جانے والی کوششوں کی رہنمائی کی۔
ڈاکٹرمدثر گوندل کا کہنا ہے کہ “اس ہسپتال میں اس نوعیت کی سرجری شاذونادر ہی ہوتی ہے اور یہ دوسری سرجری ہے جو کہ عمل میں آئی۔ آپریٹنگ روم کے اندر اور باہر وسائل کی ترتیب نو کیلئے غیر معمولی کوشش کی گئی۔ لیکن اس پروسیجر کے بعد دونوں بچوں کو نئی زندگی ملنے پر ہونے والی خوشی قابل دید تھی”۔
انستھیسیولوجسٹ نے کہا کہ انستھیسیولوجسٹس کا کردار نمایاں حیثیت کا حامل تھا کیونکہ ان کو اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ پروسیجر کے دوران دونوں بچے غیر متحرک رہیں-