لاہور (ویب ڈیسک) جاگیرداری نظام کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات کو بیان کرتے اس ڈرامے وارث کے مصنف معروف شاعر امجد اسلام امجد تھے۔ جس وقت یہ ڈراما نشر ہوتا تھا تو ملک بھر میں ہُو کا عالم ہوجاتا تھا۔ جاگیردارانہ نظام کے نشیب و فراز، دو جاگیرداروں کے مابین دشمنی اور بااثر خاندان کے اندرونی جھگڑوں اور اس نظام سے جڑی سیاست کی حقیقی تصویر پیش کرتے اس ڈرامے نے فقید المثال کامیابی حاصل کی۔ ذاتی مفادات کو ہر رشتے اور ہر شے پر فوقیت دیتے اس ڈرامے میں چوہدری حشمت کا مرکزی کردار اداکار محبوب عالم مرحوم نے ادا کیا، جب کہ فردوس جمال، اورنگزیب لغاری، جمیل فخری اور دیگر فن کاروں کی جان دار اداکاری نے بھی اس ڈرامے کی کام یابی میں اہم کردار ادا کیا۔شوکت صدیقی کے تحریر کردہ اس ناول کو پہلی بار 1969 اور پھر 1974 میں دوسری بار ڈرامے کی شکل دی گئی۔ ایک مفلوک الحال مگر باعزت خاندان کے حالات زندگی کے موضوع پر بننے والے اس ڈرامے ’خدا کی بستی‘ نے پوری دنیا میں لاکھوں ناظرین کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔قیامِ پاکستان کے بعد ایک غریب بستی میں آباد ہونے والے خاندان کے مسائل کو بیان کیا گیا کہ انہیں کس طرح کے معاشرتی، معاشی مسائل اور با اختیار لوگوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ڈرامے میں زندگی کی تلخ حقیقتیں، کم زوروں کی بے بسی، طاقت وروں کے استحصالی رویے، مذہب کے ٹھیکے داروں کی من مانیاں، غرض ہمارے معاشرے کا ہر استحصالی کردار موجود تھا۔ یہ ڈراما اپنے دور کا مقبول ترین ڈراما تھا۔ اس کی ہر قسط کے موقع پر گلیاں اور بازار سنسان ہو جاتے تھے، یہاں تک کہ اکثر شادیوں کی تاریخ طے کرنے کے موقع پر بھی ’خدا کی بستی‘ کے نشر ہونے کے اوقات کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ یہ ڈرماہ اب بھی سب کو یاد ہے۔