لاہور (ویب ڈیسک) پاکستانی اقلیتی برادری نے ایک نئے قانون کے تحت انہیں بھارت کی شہریت دینے کی بھارتی پیش کش کو مسترد کر دیا، ہندوستانی پارلیمنٹ نے حال میں ہی اپنی شہریت کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے ہندو، بودھ، پارسی اور جین برادریوں کے ان ممالک سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو
بیٹا ہو گا یا بیٹی؟ اس کا انحصار کس بات پر ہوتا ہے ؟ بڑے کام کی تحقیق
شہری بننے کے حقوق کی پیش کش کی ہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف پاس کیے گئے کالے قانون (متنازع شہریت ایکٹ) کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف بل کی منظوری دی گئی جس کے بعد یہ بل ایکٹ کی شکل اختیار کر گیا، مذکورہ کالے قانون کے تحت مسلمانوں کے علاوہ ہمسایوں ممالک سے آنے والے سکھ، عیسائی، ہندو سمیت دیگر افراد کو شہریت دی جائے گی جبکہ اس لسٹ میں مسلمان شامل نہیں ہیں، اسی پر پاکستانی ہندو برادری کی طرف سے بھی مضبوط رد عمل سامنے آیا ہے، پاکستانی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی طرف سے شہریت کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں۔خبر رساں ادارے کے مطابق دبئی میں رہائش پذیر پاکستانی ہندو برادری کے بزنس مین دلیپ کمار کا کہنا ہے کہ بھارت میں منظور کیا گیا بل انسانیت کے خلاف ہے اور یہ ہمارے مذہب کی بھی خلاف ورزی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انسان ہونے کے ناطے ہم کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کر سکتے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب کے ساتھ کیوں نہ ہو، ہم بالکل نہیں چاہتے کہ بھارت میں مسلمان دہشتگردی کا سامنا کریں، مذہبی بنیادوں پر متعارف کرائے گئے قانون ناقابل قبول ہے۔شارجہ میں مقیم ایک اور پاکستانی جان قادر، جو مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تمام عیسائی برادری بھی بھارت کی طرف سے شہریت کی پیشکش کو مسترد کرتی ہے، ہم پاکستانی عیسائی کسی بھی صورت بھارتی شہریت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی طرف سے متعارف کرایا گیا کالا قانون کسی بھی صورت میں اقلیتیوں کے حق میں نہیں ہے، یہ ایکٹ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔یاد رہے کہ منظور کیے گئے بل میں بنگلا دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق بھارت کی طرف سے متعارف کرائے گئے قانون میں مسلمان مہاجرین یا تارکین وطن شامل نہیں ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 20 کروڑ کے قریب ہے جبکہ دیگر اقلیتیں اس کے علاوہ ہیں۔ترک خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے ایک پاکستانی ہندو شہری راجہ عصر مینگلانی کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر بہت زیادہ افسوس ہے اور بھارت میں منظور کیے گئے کالے قانون کو مسترد کرتے ہیں۔ میں بطور پاکستانی بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سمیت دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اس قانون کو کسی بھی سپورٹ نہیں کریں گے۔پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انور لال ڈین، جو کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستانی پارلیمنٹ کے بڑے ہاؤس کی نمائندگی کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد مذہبی کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے سامنا لانا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ ہم واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم قانون کو مسترد کرتے ہیں۔دوسری طرف سکھ برادری کا بھی کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے منظور کیا گیا قانون متنازع ہے، ہم یہاں پر سب پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان، بھارت سمیت دنیا بھر کے سکھ برادری اس قانون کو مسترد کرتے ہیں۔بابا گرو نانک کے لیڈر گوپال سنکھ کا کہنا ہے کہ سکھ برادری پاکستان اور بھارت میں اقلیت میں موجود ہے، اقلیت کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کی حیثیت سے کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے بہت دکھ ہے کہ مسلمان بھارت میں خوف کی صورتحال میں رہ رہے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان میں ہندو برادری کی آبادی تقریباً اسی لاکھ کے قریب ہے، یہ اعداد و شمار پاکستان ہندو کونسل کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں جو کہ پاکستانی آبادی میں چار فیصد کے برابر ہیں۔ ہندو برادری کا تعلق زیادہ تر صوبہ سندھ کے علاقے تھرپارکر سے ہے جو کہ بھارتی سرحد کےبالکل قریب ضلع ہے۔خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان میں ہندو برادری کی بڑی تعداد کافی زیادہ پڑھی لکھی اور بزنس، سرکاری عہدوں اور تجارت میں کافی متحرک ہے۔