لاہور (ویب ڈیسک) سوشل میڈیا برا ہے یا بھلا مگر اس کی وجہ سے آج علی الصبح میری تو چیخیں نکل گئیں۔ مجھے کسی نے ایک ویڈیو بھیجی جس میں بولنے والے کو میں پہچان نہیں سکا۔ نہ اس کی آواز سمجھ پایا۔ میں نے اپنے نو عمر پوتے عبداللہ سے پوچھا کہ
نامور کالم نگار اسد اللہ غالب اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس ویڈیو کو وائرل کر نے کا طریقہ کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگ شیئر کریں مگر ا س نے ساتھ ہی پوچھا کہ آپ کو یہ ویڈیو وائرل کرنے کاشوق کیوں چرایا ہے ۔ میں نے کہا اس لئے کہ کوئی دوست تو اس شخص کو پہچان لے گا اور اسکی باتیں کان لگا کر سن پائے گاا ور مجھے بھی پتہ چل جائے گا کہ ا س اذیت میں کون شخص مبتلا ہے۔ میرا نسخہ کامیاب ثابت ہوا۔ سب سے پہلے حامد میر صاحب نے پوچھا کہ ڈاکٹر اجمل نیازی کس ہسپتال میں ہیں،اس کے بعد اسلام آباد سے ایک ڈاکٹر صاحب کا فون آیا کہ و ہ ابھی پچھلے اتوار کو نیازی صاحب کو گھر مل کر آئے ہیں۔ علامہ عاصم کہنے لگے کہ فرخ سہیل گوئندی سیخ پا ہیں کہ اس ابتر حالت میںڈاکٹر اجمل نیازی کا چہرہ سوشل میڈیا پر کیوں شیئر کیا ہے۔ میں نے کہا کہ گوئندی صاحب کب سے پیمرا یا پی ٹی اے کے مدا رالمہا م بن گئے۔ میں نے تو ایک آئینہ دکھایاہے۔ ہر شخص اپنی مستقبل کی شکل اس میں دیکھ سکتا ہے، یہ تو جام جم ہے جو آپ کو آپ کی تقدیر سے باخبر رکھ سکتا ہے۔دوستو! میں نے کل ایک سلسلہ و ار کالم شروع کیا تھا۔ مگر یہ ویڈیو دیکھ کر قلم ساری چوکڑی بھول گیا ہے جیسے حکومت آرمی چیف کی تقرری کے لئے ساری چوکڑی بھول گئی ہے۔ مجھے بھی اس ویڈیو نے میری اوقات یاد دلا دی ہے کہ آج ڈاکٹر اجمل نیازی اس حشر کو پہنچا ہے۔ کل کو تمہاری باری بھی ہے۔
میں نے ڈاکٹر اجمل نیازی کے گھر فون کیا۔ میں اکثر فون کرتا رہتا ہوں مگر فون خاموش رہتا ہے تو پھر میں نے فون کرنا چھوڑ دیئے۔ آج بے کل ہو کرپھر فون کیا۔ یہ لینڈ لائن نمبر پر تھا۔ کافی دیر گھنٹی بجتی رہی پھر کسی نے سسکیاں بھرتے ہوئے فون اٹھایاا ور مجھ سے پوچھا کہ تم نے پچاس برس اجمل کے ساتھ گزارے مگر اس کا حال پوچھنے کبھی نہیں آئے ۔ میں نے کہا کہ میں خود بستر سے چمٹا ہوں اور جب سے نظر نے ساتھ چھوڑاہے تو کمرے سے نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔گھر کے گیٹ پر کھڑے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کوئی موٹر سائیکل مجھے کچل کر گزر جائے گی۔ شہر جانے سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں واپسی کا رستہ ہی بھول نہ جائوں۔دوستو، پھر کہتا ہوں کہ اجمل نیازی کی ویڈیو نے میری چیخیں نکلو ادیں۔ مجھے دنیا کی بے ثباتی اور معاشرے کی بے حسی ا ور بے اعتنائی کی انتہا دیکھ کر شدید دکھ اور رنج کااحساس ہوا۔، میں اس تجربے کو بھگت رہا ہوں۔ مگر اجمل نیازی نے تو فریادکر ڈالی کہ لوگو! میں نے ساری عمر اس ملک اور قوم کی خدمت میں بسر کی مگر کوئی شخص بھولے سے میرا پتہ کرنے نہیں آتا۔ اجمل بھول گیا ہے کہ ملکی میڈیا اسی شخص کویاد رکھتا ہے جوجان سے گزر جائے۔یعنی اپنا آپ منوانے کے لئے مرناضروری ہے۔مجھے وہ ا جمل نیازی یاد آتا ہے جو میانوالی سے نیا نیا گورنمنٹ کالج لاہور میں آیا تھا۔ اس کا بھائی اصغر نیازی بھی اس کے ساتھ تھا۔
اس کے بڑے بھائی اکبر نیازی سے بھی ملا قاتیں رہیں ۔ اس کے والد صاحب کے ساتھ توآدھی رات کے بعد ملا قات ہوئی جب میں اور اجمل نیازی نے زندگی کی پہلی فلم انار کلی دیکھی تھی ۔ انکے والد پولیس میں تھے اور پھر ان سے جو ڈانٹ پڑی وہ ساری عمر بھولنے والی نہیں۔اجمل نیازی کے ساتھ پچاس برس گزر گئے، یہ دوستی وقت کے ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ ہم ایک ودسرے کو۔۔ تو۔۔ سے پکارتے ہیں۔ پنجابی کا یہ لفظ گہری قربت کے معانی سے لبریز ہے۔ مگر یہ جو کچھ عرصے سے اجمل نیازی کے کالم بند ہوئے تو کسی سے وجہ پوچھی ، پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ایک حادثہ پیش آ گیا ہے ا ور وہ بحریہ ہسپتال کے بعد ڈاکٹرزہسپتال میں ہیں۔ کسی نے بتایا کہ اب وہ گھر منتقل ہو گئے ہیں اور سہارے سے چل پھر سکتے ہیں۔ ایک دن ان کا کالم چھپا تو یوں لگا کہ گہری دھند سے سورج نے جھانکنے کی کوشش کی ہے۔ پھر وہی ہوا جو دھند، سورج کے ساتھ کرتی ہے۔ کالم پھرسے بند اور اب علی الصبح یہ ویڈیو جس نے میری چیخیں نکلوا دیں ۔ ایک جوان رعنا اور شوخ و شنگ دوست کو ا س کسمپرسی کی حالت میں دیکھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ڈاکٹر صاحب کی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو گلے شکوے ان کی زبان پر تھے کہ کسی نے خبر نہیں لی ۔ نہ کسی نے ان کی خبر چھاپی ہے ۔ میں نے حوصلہ دینے کی خاطر کہا کہ آج اجمل کی خبر لینے کے لئے کوئی گورنر آ جائے۔ کوئی و زیر اعلی آ جائے ،
وزیر اعظم آ جائے تو کیا یہ لوگ اجمل کو اس کی جوانی لوٹا سکتے ہیں۔ مگر میں ساتھ ہی یہ بھی کہوں گا کہ معاشرے کے بھی کچھ فرائض ہیں۔محض بے حس رہ کرکوئی معاشرہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس وقت تو پوری ریاست بے حس ہے بلکہ ہم لوگ ریاست کے بارے بے حس واقع ہوئے ہیں۔ ہم نے ریاست کو دو لخت کر دیا۔ اب اس میںلاشوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں اورا س کے خزانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اجمل نیازی نے جو چیخ بلند کی ہے یہ اصل میں ریاست کی چیخ ہے مگر ہم نے اپنے کان بند کر رکھے ہیں۔میں نے چالیس برس پہلے اجمل نیازی کی پہلی کتاب شائع کی تھی۔ جل تھل۔ میں کیسے بتائوں کہ اجمل کے دل ودماغ خوشیوں سے جل تھل ہو گئے۔ آج میں اس کے سرہانے جا بیٹھوں تو میں اسکی بے چارگی ا ور بے بسی کے احساس کو دو چند کرنے کا باعث بنوں گا۔ہم ہنس کر بات نہیں کر سکیں گے۔ڈاکٹر اجمل نیازی پر ایک کتاب چھپی ۔۔رازوں کاجزیرہ۔۔ علامہ عاصم نے اسے چھاپا۔ میںنے اس کتاب کے بارے میں کالم لکھا اور اجمل نے ڈھیروں شکریہ ادا کیا۔ میں کہتا ہی رہ گیا کہ اس میں شکریئے کی بات کیا ہے۔ مگر وہ کھلکھلاتا رہا، کنول کے پھولوں کی طرح ۔ کنول کے پھول کسی کسی نے دیکھے ہوں گے ۔ میں تو بچپن سے ان کے ساتھ کھیلتا رہا اور مسکراتا رہا۔سید ضمیرجعفری نے بہت لکھا اور سارا کچھ دل سے لکھا۔ ان کی ڈائری کے اوراق کئی جلدوں میں شائع ہوئے۔ ایک جگہ انہوںنے دو ہم عصروں کی ملاقات کا حال لکھا ہے ۔ لکھا کیا۔ بے چارگی کی تصویر کشی کی ہے ، ایک بڑے ادیب دوسرے بڑے ادیب سے نیو گارڈن ٹائون لاہور میںملاقات کے لئے آئے۔ جن صاحب سے ملنا تھا وہ دوسری منزل پررہتے تھے اور فالج کے مریض ۔ جو ملنے آئے تھے وہ دل کے ہاتھوں لاچار۔ نیچے سے گھنٹی دی، اوپر والے صاحب گھسٹتے ہوئے کسی طرح سیڑھیوںکے کنارے تک آئے اور نیچے والے صاحب نے بڑی مشکل سے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ دو سیٖڑھیاں پھلانگیں ۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور تا دیر دیکھتے رہے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے ۔،اس عمر میں ان دونوں کے پاس اس کے سوا بچا کیا تھا۔اجمل! میں نے تمہاری چیخ سنی اور کوشش کی کہ تمہاری چیخ کے ردھم میں خود بھی چیخوں۔ اب اس کے سوا زمانے میں رکھا کیا ہے۔جیسے دو پھول کتابوں میں ملیں۔(ش س م)