گزشتہ چند سال کے دوران پاکستانی بیوروکریسی میں جو ’’ٹیلنٹڈ‘‘ لوگ سامنے آئے، ان کی کارکردگی چھپائے نہیں چھپتی۔ ایک تاریخ رقم ہورہی ہے کہ کیسے اس ملک کو ’’آٹو پائلٹ‘‘ اور ’’خدا بھروسے‘‘ چھوڑا ہوا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ سبھی ’’ٹیلنٹڈ‘‘ تھے، کچھ سرپِھرے ایسے بھی تھے جو اس ’’عظیم غول‘‘ میں شامل ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے میں اپنی ’’افسری‘‘ کو دیکھتے ہوئے اپنا پاندان اُٹھا کر چلتے بنے کہ اس کوچے میں افسری محض جی حضوری تک محدود تھی۔ پھر اپنے آئیڈیاز دنیا میں پیش کیے، دوسروں کےلیے مشعلِ راہ بنے اور اپنے لیے زیادہ باعزت اور بہتر روزگارحاصل کیا۔
اب بیوروکریسی میں سب کے سب ’’ٹیلنٹڈ‘‘ ہی نہیں، کچھ عام سے لوگ بھی ہوتے ہیں جو جی حضوری کے بجائے اپنے کام سے انصاف کرتے ہیں۔ گو وہ میڈیا میں اپنا مقام نہیں بنا پاتے اور اکثر اوقات سیکریٹریٹ میں رپورٹ کرتے پائے جاتے ہیں، لیکن حکمرانوں کی کورنش بجا لانے کے بجائے وہ اس رپورٹنگ کو بہترسمجھتے ہیں۔
موجودہ بیوروکریٹس میں ایک بہت ہی عظیم بیوروکریٹ، کالم نگار اور باصلاحیت صاحب پائے جاتے ہیں جن کے نزدیک ان کی خدمات اس قوم پر احسانِ عظیم ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو پتا نہیں اس قوم کو رہنمائی کہاں سے میسر ہوتی، قوم بھٹکتی ہی رہ جاتی۔ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کرکٹ کھیلتے، فلمیں دیکھتے اور کچھ اور سر گرمیاں انجام دیتے دیتے ہی پاکستانی بیوروکریسی کی صف اول میں آکر کھڑے ہوگئے۔ موصوف اتنے باکمال ہیں کہ وہ ہزار دیکھ بھال اور مکمل تحقیق کے بعد ایسے گھر میں پیدا ہوئے جس کے فنِ قصیدہ گوئی کا چرچا چار دانگ عالم میں ہے۔
ویسے اگر کسی بھی بچے کی ’’گرومنگ‘‘ کی جائے، ذریعہ تعلیم انگریزی ہو، گرمیوں میں گھر ٹھنڈا ہو اور سردیوں میں گرم ہو، اسکول یا کالج جانے کے لیے گاڑی نہ سہی، موٹرسائیکل ہی ہو، پڑھنے کےلیے گھر میں ڈھیر ساری کتابیں ہوں، گھر کے قریب لائبریری ہو، ریسرچ کےلیے ’’میک بک‘‘ موجود ہو، باپ کی ’’زکوٹا جنوں‘‘ کے حلقوں میں جان پہچان ہو، سال میں ایک آدھ بار چھٹیاں یورپ وغیرہ میں گزر جائیں، تو میرا یقین کیجیے کہ بندے میں کانفیڈینس (اعتماد) اورٹیلنٹ ایسے چھلکتا ہے جیسے جوان بیٹی کو گھر میں بیٹھا دیکھ کر بیوہ کے آنسو چھلکتے ہیں۔
خیر، میرے نزدیک یہ سب اللہ کی تقسیم ہے۔ کہاں پیدا ہونا ہے؟ کسی کا کوئی بس نہیں۔ لیکن اس بات سے مفر ممکن ہی نہیں کہ اگر آپ کسی پسماندہ علاقے میں پیدا ہوگئے جہاں بچپن بکریاں چرانے، گائے بھینسں پالنے اور دن کھیتی باڑی میں، اپنے والدین کا مالی بوجھ بٹانے میں لگ جائے، تو انسان کا ٹیلنٹ ان زکوٹا جنوں کے بچوں میں منتقل ہو جاتا ہے جو اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے ہیں کہ کونسی سڑک کس علاقے سے گزرے گی تو کن صاحب کی شوگرمل کو اور ہمیں کتنا فائدہ ہوگا۔ پھر یہی بچے بڑے ہوکر مزید ٹیلنٹڈ ہوجاتے ہیں اور اس بد نصیب قوم پر پھبتیاں کستے ہیں۔ اس چکر کو توڑنے والی کوئی پالیسی کبھی پاکستان میں نہ بنی اور نہ بن سکے گی۔ بلکہ اب تو ٹیلنٹ مخصوص علاقوں ’’کلاس‘‘ سے سکڑتا ہوا مخصوص خاندانوں میں سمٹ رہا ہے۔
خیر، آئیے وہیں پر۔ یہاں جن صاحب کا ذکرِ خیر چل رہا ہے، انہیں ایک عرصے سے اس قوم پر نہ جانے کونسا غصہ ہے جو ٹھنڈا ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اپنے کالموں میں بارہا اور بار بار، ہر تیسرے کالم میں، طنزاً اس قوم کو ’’ٹیلنٹڈ قوم‘‘ لکھتے ہیں اور اوورسیز پاکستانیوں کو بار بار کوسنے دیتے ہیں۔ یہ صاحب اگر سندھ میں پیدا ہوجاتے تو ان کا سارا ٹیلنٹ جو اُبل رہا ہے، وڈیروں کے ڈھور ڈنگروں کی ٹانگیں گن کر، پھر چارسے تقسیم کرنے کے بعد ان کی صحیح تعداد معلوم کرنے پر ضائع ہوجاتا۔
کیا آپ کو یا کسی بھی انسان کو اندازہ نہیں کہ بھرے ہوئے اور خالی پیٹ انسان کی نفسیات کیا ہوتی ہیں؟ ایک بندہ صبح سویرے تازہ جوس کا گلاس پی کر، ایک مکھن لگا ٹوسٹ کھا کر اپنی گاڑی میں، ہاتھ میں آئی فون لیے انٹرویو دینے جاتا ہے، اور دوسری طرف پبلک ٹرانسپورٹ پر یا پیدل پہنچنے والا، یا دو چار سو کلومیٹر سفر کرکے رات سڑک پر گزارنے والا، بغیر ناشتہ کیے انٹریو دینے جانے والا، کیا دونوں کی پرفارمنس برابر ہو سکتی ہے؟ فیصلہ قارئین پر، میں تو اتنا ٹیلنٹڈ نہیں ہوں۔
ٹیلنٹ والے صاحب باربار اعتراض اُٹھاتے ہیں کہ اگر اوورسیز پاکستانی پیسے پاکستان میں بھیجتے ہیں تو کسی کے باپ پر کیا احسان کرتے ہیں؟ اپنے گھر والوں کو بھیجتے ہیں۔ اس اعتراض کا اسی سُر میں جواب یہی ہو سکتا ہے، کہ آپ نے زکوٹا جن بن کر اس قوم پر کیا احسان کیا؟ اپنے فائدے کےلیے ہی ناں! ظاہر ہے کہ قوم اپنا پیٹ کر آپ کی تنخواہیں بھرتی ہے اور آپ اس قوم کے فراہم کردہ بلیو پاسپورٹ پر مختلف ملکوں میں پروٹوکول کے مزے اُٹھاتے ہیں۔ اس قوم پر کیا احسان کرتے ہیں؟
میرے ناقص خیال میں کسی بھی نکتے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر اللہ تعالی نے کوئی پلیٹ فارم بھی دیا ہے، تو اعلی ظرفی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اپنی قوم کو طعنے دینے کے بجائے ان کے حقوق اور محرومیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کےلیے کاوشیں کرے۔ پاکستان میں ہر انسان جانتا ہے کہ وہ کیوں اپنے ملک میں باعزت روزگار نہیں حاصل کرسکا۔ کیوں اسے سات سمندر پار اپنوں سے دوری کاٹنی پڑتی ہے۔ ہاتھ میں سبز پاسپورٹ دیکھ کر کیوں باربار تلاشی دینی پڑتی ہے، متعدد ممالک کیوں پاکستانیوں کو ویزہ نہیں دیتے؟ کوئی خوشگوار صورتحال سامنے نہیں آئے گی، بلکہ ایسے بے شمار ’’ٹیلنٹڈ‘‘ افسران کا کیا دھرا سامنے آئے گا کیوںکہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی یہی افسران ہوتے ہیں جو بد قسمتی سے ہمارے ہاں زکوٹا جن کہلاتے ہیں۔
اور اس قوم کو حکمران اور یہی عالی دماغ افسران آج تک کسی بھی پلیٹ فارم پر مساوی سہولیات فراہم نہیں کرسکے، نہ معاشی اور نہ سماجی، انہیں مکمل طور پر ناکامی ہوئی۔ ابھی تک اس قوم کو یکساں تعلیمی نظام تک نہ دیا جا سکا تاکہ پتا چلایا جاسکے کہ آخر مخصوص علاقوں، کلاس یا خاندانوں کے علاوہ بھی نوجوانوں میں دماغ کا اوسطاً وزن اتنا ہی ہے یا کم ہوتا ہے۔ آخر کس بوتے پر آپ اس قوم کو طعنے دینے کا حق رکھتے ہیں؟ لکھنا شروع کریں تو پھر بہت طویل فہرست ہے کہ آخر کاہے کو سارا ٹیلنٹ ایک کلاس میں جمع ہو رہا ہے، جو اس کلاس کا ہر بچہ ’’زکوٹا جن‘‘ بن رہا ہے؟ یہ قانونِ قدرت کے خلاف ہے۔ وسائل کی فراہمی ہر بچے کو علیحدہ راستہ چننے پر مجبور کرتی ہے۔ ہاں، ایسے بھی ہوتے ہیں جو حالات کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اپنا راستہ خود بنا کر آگے آجاتے ہیں۔
میری ذاتی رائے میں ہر وہ انسان، جو وسائل کی کمی کے باوجود، اپنی غربت کے حصارکو توڑ کر معاشرے کو کسی بھی سطح پر بہتربنانے کی کوشش کرے، ٹیلنٹڈ اور تعریف کا مستحق ہے۔
کبھی افسری سے باہر نکل کر، حقیقت کی دنیا میں آ کر، مکمل تصویر دیکھیے۔ اس سے رات کو میڈی کیٹڈ میٹرس پر بھی گہری نیند نہیں آئے گی اورموٹاپا بھی کم ہوجائے گا۔ مجرب نسخہ ہے۔