پاکستانی قوم کا شمار ایسی قوم کی نسبت سے کیا جاتا ہے جو بہت جلد جذباتی ہو جاتی ہے۔ اس قوم کو جہاں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہاں پر یہ قوم اپنے جذبات میں اس قدر آگے نکل جاتی ہے کچھ سوچنے سمجھنے کی طاقت سے محروم ہو جاتی ہے۔ جب جذبات ٹھنڈے ہوتے ہیں اور عقل کام کرنا شروع کرتی ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
ہم اپنے ملک میں چوہدری، گجر، شیخ، بٹ، آرائیں کہلوانا توپسند کرتے ہیں مگر جب کسی ایسے نام نہاد تہذیب یافتہ، مہذب ملک میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں پر یہ سب کچھ بھول کر صرف ایک بات یاد رکھتے ہیں اور وہ بات ہے اس ملک کی شناخت۔ یہ لوگ اس ملک میں جا کر اپنے آپ کو فخریہ طور پر امریکی کہلوانا پسند کرتے ہیں اور گرین کارڈ حاصل کرنا اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں پاکستان کے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی ایک نجی دورے پر امریکہ تشریف لے گئے۔ امریکہ میں جان ایف کینیڈی ائیرپورٹ پر ملک کے وزیراعظم کی جامع تلاشی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ کس طرح اور کن کٹھن مراحل سے گزر کر ان کو اپنی سیکیورٹی کلیئرنس کروانی پڑی۔ جب پاکستان میں اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا “میں گزشتہ چالیس برس سے امریکہ جا رہا ہوں اور اس میں کوئی معیوب بات نہیں۔ میں اس اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہم جس ملک میں بھی جائیں، ہمیں وہاں کے قوانین پر لازمی عمل کرنا چاہئیے”۔
جبکہ دوسری جانب اسلام آباد میں ایک امریکی ڈپلومیٹ کی گاڑی سے ایک معصوم پاکستانی اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ اس ڈپلومیٹ نےجان بوجھ کر سرخ بتی کو نظر انداز کیا، اشارہ توڑا، ایک معصوم شخص کی جان لی اور اپنی جان بچانے کے لیے استثناء کی چھتری کے نیچے پناہ لی۔