تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ
پاکستان میں 1980ء سے غیرملکی قرض لینے کی بات کی جائے تو قرضے کی منظوری کے ساتھ ہی سیاستدانوں، حکمران میں خوشی کہ لہر پائی جاتی ہے۔ ایک دوسر ے کو مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔قوم سے خطاب اور پرنفرنسوں کا سلسلہ عروج پر ہوتا ہے جس میں وزیر خزانہ سمیت تمام حکمران پارٹی کے عہداروں اور کارکن کی بڑی تعداد میں قوم خوشی کی نوید سنانا شروع کر دیتی ہے۔
بلکہ کے ترقیاتی کام کیلئے پیکیج سمیت دیگراعلانات عام ہوجاتے ہیں۔اورساتھ ہی منی بجٹ کی منظوری دی جاتی ہے۔اگرکوئی غلطی ٹیکس میں اضافہ بات کرے توجواب یہ بات بھی سامنے آجاتی ہے ۔ عوام کچھ زیادہ ٹیکس دے دیں گے تو قیامت نہیں آجائے گی۔ایساہی کچھ گزشتہ روزہوا۔وزیراعظم نے چالیس ارب روپے کے منی بجٹ کی منظوری دے دی، یکم دسمبر سے درامدی بسکٹ، چاکلیٹ، سگریٹ اور کاسمیٹکس سمیت تین سو تیرہ اشیا مہنگی ہوجائیں گی۔ جس کے بعد درآمدی پھل، دودھ، دہی، مکھن، ڈبل روٹی، کیچپ، چاکلیٹ، اچار، چٹنی، سوپ، یخنی، مشروبات، کاسمیٹکس، بسکٹ، سگریٹ، صابن، شیمپو، ماربل اور اسٹیل سمیت تین سو تیرہ پرتعیش اشیا پر ڈیوٹی پانچ سے بڑھا کر دس فیصد کردی جائے گی۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں ان ٹیکسوں کی منظوری دیگی۔ حکومت نے ماضی میں درآمدی اشیا پر ختم کی جانے والی ریگولیٹری ڈیوٹی کو بھی دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے، رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ایف بی آر نے دو سو بیاسی پرتعیش اشیا پر پانچ فیصد ریگولٹری ڈیوٹی بڑھائی تھی، واضح رہے رواں مالی سال پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی چھ سو چالیس ارب روپے کے مقابلے میں صرف چھ سو ارب روپے رہی۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کھانے پینے کی امپورٹڈ اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کی تصدیق کر تے ہوئے کہاکہ غیر ملکی مکھن اور چاکلیٹ کھانے والے غریب نہیں ہوتے۔ امپورٹڈ مکھن کھانے والا ٹیکس کیوں نہ دے۔ امیروں کیلئے بیرون ملک سے بسکٹ ایکسپورٹ ہوتے ہیں غیر ملکی مکھن اور چاکلیٹ کھانے والے کچھ زیادہ ٹیکس دے دیں گے تو قیامت نہیں آجائے گی، ٹیکس بڑھانے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔
نان فائلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کے رعائتی شرح کے نفاذ کے باعث 20ارب روپے کا نقصان ہوا۔ حکومت نے ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 06فیصد کم کرکے 0.3فیصد کی تھی۔ بجٹ میں اس مد سے پہلے 38بلین روپے کا ہدف تھا تاہم اس میں 18ارب کی کمی کرنا پڑی جبکہ رعایتی شرح کے باعث 20ارب روپے ریونیو کا نقصان ہوگا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس سے ملک میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے میں مدد ملی۔ جولائی میں ایک لاکھ نان فائلرز نے گوشوارے داخل کئے ہیں۔ اس سال گوشواروں کی تعداد 10لاکھ ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی کہ اگر 4سے 5ملین تاجر ٹیکس نیٹ میں آجائیں۔ حکومت نے جان بوجھ کر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح زیادہ مقرر کی تھی کیونکہ خیال تھا کہ اس سلسلے میںرعایت دینا پڑے گی۔
معاہدوں کے تحت ایشیائی ترقیاتی بنک توانائی کے شعبے کے لئے پاکستان کو 60کروڑ ڈالر قرض فراہم کرے گا۔ ناروے ‘ آسٹریلیا’ یو ایس ایڈ سمیت کئی ممالک ڈیزاسٹر فنڈ میں شریک ہونگے۔ پاکستان اور ایشیائی ترقیاتی بنک کے درمیان معاہدے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
قرضہ کی رقم سے آئیسکو اور دیگر پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں ایڈوانسڈ میٹرنگ انفراسٹرکچر نظام لگایا جائے گا جبکہ 400 ملین ڈالر انرجی سیکٹر اصلاحات پروگرام کے لئے دئیے جائیں گے۔ تاریخی حوالے سے کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لینے والوں اور پھر اپنی صنعتوں کو بیمار یا خود کو دیوالیہ قرار دے کر وہ قرضے معاف کروانے والی بڑی تعداد کاتعلق 1980ء اور 1990ء کی دہائی سے تھا اور ہزاروں کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہونے کے باعث قرضوں کا سود اور اصل زر بڑھتا گیا جس کے باعث بینکوں کی نجکاری کے دوران بھی مسائل پیش آئے، کئی قرضے ناقابل وصولی ہوئے۔
پاکستان کے بڑے سیاسی گھرانوں اور کاروباری اداروں کے بینک قرضوں کی معافی کی کہانی تقریباً تین دہائیوں پر محیط ہے۔ خاص طور پر جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار سے سیاسی مصلحتوں کے تحت مخصوص افراد ، گھرانوں یا کاروباری اداروں کے قرضوں کی معافی کا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بھی سیاسی نوازشوں کا یہ سلسلہ جاری رہا اور اس کے تحت 1999ء سے لے کر 2008ء کے درمیانی عرصے میں 125 ارب روپے کے کمرشل قرضے معاف کئے گئے جن میں سیاستدان، جرنیل، صنعتکار ، صحافی اور میڈیا گروپ بھی شامل تھے۔ قرضے معاف کرانے والے یا قومی مصالحتی آرڈیننس یعنی NRO سے فائدہ اٹھانے والے وزراء اور حکام کی خبریں غیر معمولی طور پر نمایاں ہیں۔ لیکن28 فروری 2012 کے روزنامہ جنگ اخبار کے مطابق ہر پاکستانی شہری پر 68 ہزار پاکستانی روپے کا قرضہ تھا۔
ماہرین کا کہناہے کہ جومعاہدوں کے تحت ایشیائی ترقیاتی بنک توانائی کے شعبے کے لئے پاکستان کو 60کروڑ ڈالر قرض فراہم کرے گا۔اس کی کیا ضمانت ہے وہ رقم ان منصوبوں پر خرچ کی جائے گی ۔کیونکہ2018ء تک مسلم لیگ ن حکومت کی آئینی مدت پوری ہوجائے گی۔اس وقت پاکستان میں غریب اور سفیدپوش گھرانے میں پیداہونے والا بچہ تقریب 4لاکھ روپے مقروض ہے۔اور پاکستان کے ” شاہی ” سیاسی خاندان میں پیداہونیوالا بچہ تقریبا 2 کروڑوں روپے مالک ہے۔ جس کی وجہ ملک میں مہنگائی ،ناانصافی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے جرائم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت اور وزیر خزانہ کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرناہوگی ورنہ ٹیکسوں میں اضافے سے تو قیامت آجائے گی،جس عام آدمی متاثر نہیں ہوگا بلکہ قیامت ساز پالیسی میکر وں کو ناقابل برداشت نقصان اٹھاناپڑے گا۔کیونکہ کروڑوں پاکستانیوں افراد کومہنگائی نے مختلف طریقوں سے پریشان کررکھاہے۔تقریبا150لوگ روزانہ ٹریفک،ڈکیتی،سیاسی رنجش میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔اورلوگوں کاانصاف فراہم نہیں کیا جارہا اورنہ ہی کو پالیسی بنائی گئی ہے جس کے تحت فوری انصاف مہیا ہو سکے۔
تحریر: غلام مرتضیٰ باجوہ