اسلام آباد(نامہ نگارخصوصی) پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبے خوست کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم پاکستانی خاندان وطن واپسی کا منتظر ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ لوگ شمالی وزیرستان اورقبائلی اضلاع میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد افغانستان نقل مکانی کر گئے تھے۔ فوجی آپریشن کے باعث مختلف علاقوں سے ہزاروں افراد نے گھر بار چھوڑ کر انتہائی بے سروسامانی کے حالت میں نقل مکانی کی۔ اس وقت زیادہ تر لوگ بنوں، لکی مروت، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر شہروں حتیٰ کہ اسلام آباد تک پہنچ گئے تھے۔زیادہ تر لوگوں نے تو مختلف شہروں اور قصبوں میں اپنے عزیز و اقارب کے ہاں پناہ لی تھی جب کہ بہت سے لوگوں نے کرایے کے مکانات میں سکونت اختیار کی تھی۔ لیکن کم آمدنی والے لوگوں کے لیے حکومت نے بنوں کے قریب عارضی طور پر بکاخیل کیمپ قائم کر دیا تھا جس میں اب بھی دو ہزار سے زیادہ خاندان آباد ہیں۔
اس دوران شمالی وزیرستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی صوبے خوست میں بھی ہزاروں خاندان منتقل ہو گئے تھے۔ خوست منتقل ہونے والے قبائلیوں کا تعلق دتہ خیل اور مداخیل قبائل سے تھا۔ 2014 کے وسط میں جب شمالی وزیرستان سے قبائلیوں نے نقل مکانی کی تو اس وقت خوست کے گورنر عبدالجبار نعیمی تھے جنہوں نے پاکستان میں کافی وقت گزارا تھا۔امریکی خبررساں ادارے کو خوست کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم جمشید خان نے بتایا کہ زیادہ تر نقل مکانی کرنے والے خاندان وطن واپس جانا چاہتے ہیں، اس مقصد کے لیے وہ مختلف اوقات میں قبائلی جرگے میں شامل ممبران اور منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت سے اپیل بھی کرتے رہتے ہیں مگر حکومت کی جانب سے انتہائی سرد مہری کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمشید کی طرح پاکستان کے قبائلی اضلاع میں فوجی آپریشن کے باعث ملک کے دیگر حصوں اور افغانستان نقل مکانی کرنے والے ہزاروں شہری اپنے آبائی علاقوں میں واپسی کے منتظر ہیں۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ کئی سال سے نامساعد حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں لہذٰا حکومت اُن کی واپسی کے عمل کو تیز کرے۔ پاکستان کی فوج نے 2014 میں افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں آپریشن ‘ضرب عضب’ شروع کیا تھا جس کے بعد شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی اضلاع سے ہزاروں پاکستانی باشندے بھی عارضی طور پر افغانستان نقل مکانی کر گئے تھے۔ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ ان میں ایسے قبائلی گروہ بھی شامل ہیں جو پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ افراد بھی واپس آنا چاہتے ہیں لیکن ان کی واپسی کے حوالے سے بھی پاکستان کی حکومت شش و پنج کا شکار ہے۔ پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر ان افراد کی واپسی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ افغانستان نقل مکانی کرنے والوں کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ ان میں تقریباً پانچ ہزار خاندانوں کی واپسی ہوئی ہے جب کہ 10 ہزار کے قریب ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں جن کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ تاہم شمالی وزیرستان کے مداخیل قبیلے کے سرحد پار خوست کے علاقے ‘گربز’ میں رہائش پذیر ملک جمشید خان کا کہنا ہے کہ 12 سے 14 ہزار خاندان وطن واپسی کے لیے بے تاب ہیں۔ افغانستان کے صوبہ خوست کے ضلع گربز کے انتظامی سربراہ اولسول یونس زردان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں میں تقریباً سات ہزار کے قریب خاندان گربز سمیت تین خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ زیادہ تر لوگ خوست سمیت افغانستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں عارضی طور پر رہائش پذیر ہیں۔ جمشید خان نے کہا کہ جون 2014 میں نقل مکانی کرنے کے بعد افغان حکومت نے ان لوگوں کی رہائش کے لیے مختلف مقامات پر خیمہ بستیاں قائم کی تھیں۔ ان میں سے تین اب بھی قائم ہیں۔ پہلے ان لوگوں کو یو این ایچ سی آر نے خیمے فراہم کر دیے مگر بعد میں ان لوگوں نے سردی، بارش اور برف باری سے بچاؤ کے لیے مٹی کے تودوں سے کچے گھر بنائے۔ نقل مکانی کرنے والوں کو افغان حکومت اور یو این ایچ سی آر کی جانب سے آٹا، گھی، دالیں، چینی اور دیگر خوردنی اشیا فراہم کی جاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ان لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
پاکستان سے ملحقہ افغان صوبے خوست کے پناہ گزین کیمپ میں مقیم جمشید خان اور ان کا خاندان چھ برس سے یہاں مقیم ہے۔ یہ خاندان 2014 میں شمالی وزیرستان اور قبائلی اضلاع میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد افغانستان نقل مکانی کر گیا تھا البتہ چھ سال گزر جانے کے باوجود بھی جمشید اور اُن کا خاندان وطن واپسی کا منتظر ہے۔
عبدالجبار نعیمی نے 90 کی دہائی کے اوائل یعنی 1992 سے 1996 کے آخر تک اور پھر نائن الیون کے بعد 2002 میں ایک مختصر عرصے تک اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت حانے میں فرسٹ سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں تھیں۔
اُنہوں نے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی رہائش کے علاوہ دیگر علاقوں میں کیمپ قائم کر دیے اور اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کے تعاون سے ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی۔
افغان تجزیہ کار بختیار ھمت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد خوست میں رہائش پذیر ہے۔
اُن کے بقول خوست کے علاوہ جنوبی وزیرستان سے ملحقہ پکتیکا صوبے کے علاقے بیرمل اور غلام میں قائم کردہ خیمہ بستیوں میں بھی کئی افراد رہائش پذیر ہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے دوران نقل مکانی کرنے والوں کی محدود واپسی کا سلسلہ 2015 میں شروع ہوا تھا۔ تاہم 2016 اور 2017 میں بہت زیادہ لوگوں کی واپسی ہوئی تھی۔ اس دوران خوست افغانستان منتقل ہونے والوں کی واپسی کا سلسلہ پہلے غلام خان کی سرحدی گزرگاہ اور بعد میں کابل طورخم اور خرلاچی کے ذریعے ان کی واپسی ہوئی تھی۔
تاہم جولائی 2018 میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام اور عام انتخابات کے بعد افغانستان نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کا سلسلہ اب تک مکمل طور پر معطل ہے۔ اس سلسلے میں نہ صرف نقل مکانی کرنے والے قبائلی بلکہ شمالی وزیرستان کے قبائلی رہنما وقتاً فوقتا آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما ملک خالد خان داوڑ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُنہوں نے کئی قبائلی رہنماؤں کے موجودگی میں انتظامیہ کے ساتھ اس مسئلے کو اُٹھایا ہے اور بار بار حکومت سے ان لوگوں کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے مگر حکومت اس بارے میں مکمل طور پر خاموش ہے۔
شمالی وزیرستان کے قبائلی رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی کے عہدے دار ملک غلام خان جن کا چند روز قبل انتقال ہوا ہے۔ اُنہوں نے بھی شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے لیے ایک مؤثر تحریک چلائی تھی اور اس سلسلے میں ان کی قیادت میں بنوں پشاور اور اسلام آباد میں مظاہرے کیے گئے تھے۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پرونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کے دوران نقل مکانی کرنے والوں میں سے اب تک تصدیق شدہ 110،000 خاندانوں کی واپسی ہوئی ہے جب کہ 15600 خاندان ابھی تک مختلف علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ ان لوگوں میں 2040 خاندان بنوں بکاخیل کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔