لاہور(انتخاب : شیر سلطان ملک) میں دکھائی نہیں دیتا مگر میں ہوں۔۔ تمہاری گلی کی موڑ پر کبھی رکشہ ڈرائیور بن کر کھڑا تمہارے گھروں کی حفاظت پر معمور ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کبھی تمہاری نوجوان اولاد کی حفاظت کے لیے کرکٹ اور ہاکی کے گراونڈز کی باونڈری لائن کے باہر کھڑا تماشائی بن کر۔۔۔۔۔۔
میں موجود ہوں۔۔۔۔۔۔ کسی مجذوب کا روپ دھارے تمہارے گھر والوں کی حفاظت کے لیے تمہارے شہر کے بازاروں میں ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں احساس نہیں ہوتا مگر عین موقع پر تم سے بھیک مانگ کر تمہاری جیب کٹ جانے سے بچا لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ شہر کے لاری اڈہ پر اخبار بیچتے ہوئے تمہارے اردگرد سے باخبر رہتا ہوں۔ مگر تم ۔۔۔۔ مجھ سے بے خبر ہو کر چلتے ہو۔۔۔۔کسی ہسپتال میں نرسنگ سٹاف کا ممبر بن کر تمہاری جانوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ تم دیکھتے ہو جب کبھی سگنل پر گاڑی رکتی ہے تو میں بس میں کوئی مرغ دال یا قلفی بیچنے والا بن کر چڑھ دوڑتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ تم قلفی یا دال خریدتے ہو مگر میں ۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں ایک باحفاظت سفر کی ضمانت دے جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے جون جولائی کی تپتی اور لو دیتی دھوپ میں جب پرندے اپنے گھونسلوں میں چھپ جاتے ہیں میں امرود بیچنے والا بن کر یا پھر کباڑیا بن کر تمہاری گلیوں میں گشت کرتا ہوں۔ تاکہ شہروں کا کباڑا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو جنوری کی یخ راتوں میں رات کی تاریکی میں سیٹی بجاتا تمہاری گلیوں سے گزرنے والا اکثر تمہارے محلے کا چوکیدار نہیں بلکہ تمہارے وطن کا چوکیدار ہوتا ہے۔
تم جانتے ہو مجھے اپنے وطن کے علاوہ عالم اسلام کی بھی فکر رہتی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی میں ایک مجاہد بن کر وادی کشمیر کی بہنوں کے غموں کا مدوا کرنے پہنچ جاتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ کبھی ایک ہندو یا سکھ بن کر انڈین وزیراعظم کے پرسنل سیکیورٹی افسر کے فرائض سرانجام دیتا ہوں۔ کبھی انہی کی پارلیمنٹ کا نمائندہ بن کر تمہارے جذبات کے نمائندگی کرتا ہوں۔ تم مجھے دیکھتے نہیں میں کبھی کسی صحافی کا روپ دھار کر اسرائیلی فوجیوں کی مخبریاں کرتا ہوں ۔۔ تو کبھی فلسطینی مجاہدین کو ٹرینگ دیتا ہوں۔ میرا ہی کارنامہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدا بلند کروا دیتا ہوں۔۔۔ یہ میں ہی ہوں جو روس کو سہانے خواب دکھا کر پہلے افغانستان لاتا ہوں ۔ پھر امریکہ سے تعاون لے کر پوری دنیا کو روس کی جارحیت سے پناہ دیتا ہوں ۔ اور یہ میں ہی ہوں جو امریکہ کا دایاں بازو بن کر امریکہ کو ہی کاٹتا ہوں۔ یہ میری ہی چابکدستی ہے کہ امریکہ 12 سال تک افغانستان میں ٹکریں مارتا ہے۔ اور خوب سرمایہ تباہ کرتا ہے۔ البتہ اسامہ کا ڈرامہ ایبٹ آباد میں فلاپ کروا دیتا ہوں۔ یہ میرا ہی کارنامہ ہے کہ
خدمت کے نام پر بی ایل اے کے منصوبے کا مقابلہ اور بلوچوں کو منا لیتا ہوں۔ تم نہیں جانتے کہ تمہارا حج میرے بغیر کتنا مشکل ہو جائے ۔ میں حرم کی پہرہ داری پہ کھڑا ہوتا ہوں تاکہ تم اپنے لیے امن کی دعا کر سکو ۔۔۔۔۔۔ میں کسی نہ کسی کور میں برما تک پہنچ جاتا ہوں ۔ تاکہ انہیں لڑنا سکھا سکوں۔ میری لڑائی انڈیا، امریکہ اور اسرائیل سے بھی ہے۔ اور ان کے پالتوؤں سے بھی ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے جیسے بہت سے دہشت گردوں سے بھی ۔ مجھے ہر جگہ جانا ہوتا ہے۔ مجھے مسلم امہ کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔ اور ملت کفر کی ہر سازش پر نظر بھی ۔۔۔میں ملک کی ہر گلی سے لے کر کفر کے ہر ایوان تک موجود ہوں ۔۔۔۔۔ میں ہر وقت مستعد ہوں ۔ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے سوچا کہ میں اتنا کچھ کیوں کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے فکر ہے۔ میں نے عراق اور صومالیہ کا حال دیکھا ہے میں نے ہیروشیما پر ایٹم بم گرتے دیکھا ہے۔ میں نے شام اور مصر کا حال دیکھا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میرے مقابل سی آئی اے بلیک واٹر راء اورموساد جیسے مہنگے کرائے کے قاتل ہیں ۔
جن کا مقصد ہی مجھے، میرے پاکستان کو ختم کرنا ہے۔ میں جیتا ہوں اتنے دشمنوں میں ۔ غیروں کی سازشوں میں ۔۔ اپنوں کی دغابازیوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سارے دشمن جب مل کر حملہ کرتے ہیں تو کبھی کبھار مجھے زخم لگ جاتے ہیں۔ میں وسائل تھوڑے ہونے کے باعث نہیں پہنچ سکتا اور وہ وسائل کی زیادتی کے باعث کبھی کبھار جیت جاتے ہیں ۔ میں ان کی اس جیت کو ہار میں تو نہیں بدل سکتا ۔۔ مگر اپنے رستے زخموں کے باوجود ان پر ایسی ضرب لگا دیتا ہوں کہ ان کی جیت کی خوشی مانند پڑ جائے
تمہیں میری زیادہ فتوحات میری طرح نظر نہیں آتی ۔ مگر میرے زخموں کو کریدنے تم ہمیشہ پہنچ جاتے ہو۔۔ اتنے دشمنوں کے ہوتے ہوئے میں نے تمہیں برما، شام، فلسطین، کشمیر، صومالیہ ہیروشیما نہیں بننے دیالیکن ان ملکوں کو بےسہارہ بھی نہیں چھوڑہ ہم سے جتنا بھی ہو سکا ہم نے ہر مسلمان ملک کی مدد کی ہیں انکو لڑنا سیکھایا میں نے خود پہ زخم کھا کر تمہارے وجود جو آج پروقار بنایا ہے۔ آج تمہیں سی پیک دیا عالم اسلام کا سردار بنایا تمہیں ایٹمی طاقت بنایا کشمیر جہاد کو سہارا دیا۔