تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
مشہور مقولہ ہے ” ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا” یہ آج کے موجودہ پاکستانی حالات پر بالکل فٹ آتا ہے۔ اگر ہم نے کسی غلیظ دائو پیچ والی سیاست، بھونڈی مصلحت، روائیتی کمپرومائز کے ذریعے خدانخواستہ معاشرے کے کرپٹ ترین افراد خواہ وہ سود در سود نو دولتیے سرمایہ دار ہوں، کئی گنا زائد منافع کمانے والے صنعتکار، انگریزوں کی ناجائز اولاد جاگیردار وڈیرے یا ان کی اولادیں ہی کیوں نہ ہوں کو بغیر کسی جزا و سزا کے چھوڑ دیا تو پھرر ہتی دنیا تک ان پر ہاتھ ڈالنے اور اسے مروڑ نے والا کوئی بھی نہ ہو گا۔ اور یہ حرام کی کمائیوں پر پلنے والے مالدار اس طرح دندناتے ،دھاڑتے پھریں گے۔جیسے بھوکا بوڑھا شیر تازہ شکار کرکے اس کا گوشت کھانے کے بعد چنگھاڑتااور دھاڑیں مارتا ہے اس کے مردہ جسم میں دوبارہ زبردست طاقت اور توانائی آ جاتی ہے۔تو ہی وہ غرور و تمکنت کی وجہ سے ایسا عمل کرتا ہے۔
حرام کا مال کمائے ہوئے ایسے لوگ “سونی پڑی گلیاں (غریبوں کی )وچ مرزا یار(خزنے لوٹنے والا) پھرے کی طرح ہمیں ان کی جدید ترین کاروںکی دھول ہی نصیب ہو گی انکوائری و تحقیقاتی کمیشنوں کے جلدازجلد نتیجے یا پرانے “کُھنڈ” تھانیداروں کے ذریعے بیرون ممالک لے جا کرخزانوں اور عوام کے خون سے چوسا گیا سرمایہ دفن کرنے والوں،بنک کے قرضے معاف کرانے والوں کی موٹی گردنوں میں نوکیلے آہنی رسے فوراً نہیںکھینچ ڈالے جاتے تو پھر یہ ساری کہانی بھولی بسری ہو جائے گی اور ڈھیر سالوں بعد تو” جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا “والی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔کئی ممالک کے وزائے اعظم عوامی دبائو برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے پانامہ لیکس کی”بدولت” مستعفی ہوچکے ہیں مگر ادھر تو”زمیں جنبدآسمان جنبدنہ جنبدگل محمد( شریفین)” والی بات صادر نظر آتی ہے۔
وزیر اعظم کے مشیروں نے انھیں خود کو بچانے بالآخر سیاسی خود کشی کا ایسا فارمولا بتا دیا ہے کہ کئی درجن سالوں تک بھی ایسے تمام افراد کی لمبی لسٹ کی تفتیش مکمل ہونے کا نام نہیں لے گی اور اس وقت تک نواز شریف اور ان کے شہزاد گان زیر زمین آرام فرما رہے ہوں گے اگر کمیشن دو چار ہفتوں میں نواز اینڈ کو کا قصہ تمام کرڈالتا ہے اور باقی تحقیقات زرداری ،گیلانی،راجہ رینٹل ،سیف اللہ خاندان ،گجراتی چوہدری اور عمران خان کے دونوں اے ٹی ایم کارڈز( ترین اور علیم خان)و دیگر لٹیروںکی بھی اس کے بعد مکمل ہو جائیںتو فبہا۔(عمران خان جمع خاطر رکھیںاگر ان کے دو اے ٹی ایم کارڈز کمیشن کے نتائج میں گھس کر ناکارہ ہو جائیںیا پھر گم ہی ہو جائیں توان کے پیچھے کئی اے ٹی ایم کارڈز کی لمبی لائن ان کی خانہ پری کرڈالے گی)و گرنہ جن جن کانام بمعہ ان کے سہولت کاروں کے پانامہ لیکس میں آیا ہے انہیں کسی بھی دیہاتی تھانے کے حوالے کر ڈالا جائے وہاں باقاعدہ مقدمہ اندارج ہو مدعی خواہ مجھے ہی بنا لیا جائے جسے خدائے عز و جل کے آگے جھکنے کے علاوہ کوئی بڑے سے بڑا تمندار یا ناٹھو خان55سال سے نہیں جھکا سکا۔
سویلین و فوجی آمروںنے بہتیرے تشدد روارکھے مگر حزب اختلاف کا کردار بہ فضل خدا احسن طریقے سے ادا کرتا آرہا ہوںاور آج تک کبھی قدم نہیں ڈگمگائے۔اب بھی مصمم ارادہ اور قوم سے پکا وعدہ ہے۔کہ اگر مجھے مدعی بنا یا گیا تو جب تک ان لٹیروں سے سارا مال بر آمد ہو کر سرکاری خزانہ میں جمع نہیں ہو جاتا پیچھے نہیں ہٹوں گا۔دیہاتی تھانیداروں کی تفتیش چونکہ انتہائی مؤثرہوتی ہے کہ وہی ڈانگ پھیرنے ،مرغا بنا کر اوپر گھڑا رکھنے،الٹا لٹکانے،منہ پر گو بر باندھنے ،لتر پریڈ کرنے (آجا بالما تیرا انتظار ہے)منجی(چارپائی) لگانے،تلوے سینکنے چھت سے بال باندھنے ،کتوں کی طرح بھونکوانے،جانوروں کی چال چلوانے،پسی سرخ مرچوں سے تر بتر ڈنڈا”وہاں”گھسیڑنے،جگرتوں، مُنج سے جسم اور ٹانگوںکو باندھ کر پانی کے نیچے کھڑ ا کرنا یا ڈبکیاں لگواناجیسے حربوںاور”کارناموں “کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
غریب چور روزان سزائوں کا مزا چکھتے ہیں مگر اب بڑے چوروں ،ڈاکوئوں اور لٹیروں کو بھی ذرا ذرا ان کا مزا چکھنے دو۔تھانوں کے با ہر عوام کا جم غفیر خوشیوں سے ڈھول پیٹتا اور عمرانی جلسوں کی طرح گیت مالائیں گاتا اور رنگ رنگیلیاں منا رہا ہوگا۔اگر واقعی لوٹا ہوا مال بر آمد کرنا مقصود ہے تو پھر دیہاتی تھانہ کے ایس ایچ او کو ہی کافی سمجھیں کہ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چو کھا آوے”کی طرح سارا دفن کردہ حرام مال پورے کا پورا برآمد سمجھیں ویسے ہی لوگوں کو شغل میلہ دکھانا مقصود ہے اور ٹی وی اینکرز کی ریٹنگ بڑھانا ہے اور چسکہ پروگرام چلا کر لعنت ملامت کرناہے تو پھر حزب اختلاف والوں کی اپنی مرضی ہے۔
ہمارے نام نہاد کمیشنوں کی رپورٹس آج تک شائع نہیں ہوسکیں صرف 29مئی 1974کوربوہ (حال چناب نگر) کے ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں کی طرف سے نشتر میڈیکل کالج ملتان کے170طلباء کو زخمی کرنے پرقائم کردہ انکوائری کمیشن جس کی سربراہی جسٹس صمدانی کر رہے تھے کی رپورٹ10ہفتوں میں ہی منظر عام پر آگئی تھی جس کی صرف اور صرف وجہ یہ تھی کہ اس کے پیچھے تحفظ ختم نبوت کی تحریک چل رہی تھی اور ملک بھر کے عوام اس تحریک کے پشتیبان تھے۔
کسی میں بشمول اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو کو بھی جرآت نہ تھی کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے علاوہ کوئی کلمہ بھی منہ سے نکال سکیں ۔کہ ملک بھر میں ختم نبوت زندہ باد کے نعروں کی گونج تھی۔بہر صورت یہ واضح ہے کہ اگر حزب اقتدار و حزب اختلاف و دیگر سیاسی جماعتیں نواز اینڈ کو کو عام معافی دے بھی ڈالیں تو اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کہ بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے اب تو اللہ اکبر ،اللہ اکبر اور رسالت مأب ۖ کے نعرے لگاتے ہوئے غریب عوام اور پسے ہوئی طبقات کے مزدور ،محنت کش اور کسان و ہاری ایک تحریک کی صورت میں نکلیں گے اور کرپٹ مافیا کو زندہ درگور کرکے چھوڑیں گے۔ جو افراد بھوک پیاس ،ننگ افلاس اور مہنگائی کے سانپ کے ڈسے ہوئے خودکشیاں ،خود سوزیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے لواحقین اورا ن کی دیکھا دیکھی دیگر عوام کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے کہ وہ تو دوائی و خوراک نہ ملنے پر موت کی وادیوں میں جھول گئے۔اور ادھر طبقہ ظالمان سارا مال لوٹ کر بیرون ملک پلازے بنائے عیاشیوں میں مصروف ہے۔اب تو غریب عوام ان سب کو چوکوں میں الٹا لٹکا ہوا دیکھیں گے تو ہی ان کی آرزو پوری ہو گی۔
اڑھائی سو ارب ڈالر باہر دفنا دیے گئے ہیں۔ وہ سب ڈنڈے اور صرف ڈنڈے کے زور پر واپس آجائیں تو اسی عرب ڈالر کا قرضہ بھی اتر جائے گا۔اور ملک باقی رقوم سے خوشحال ہو کر ترقی پذیر ہو سکے گا۔نتیجہ خیز زوردارتحریک بھی کرپشن کے خلاف چلتی رہے اور انکوائریاں بھی ہوتی رہیںہفتہ میں دو مجرموں کولازمی نشان عبرت بنایا جاتا رہے سیاسی لوگوںکو سمجھ لینا چاہیے کہ
نشہ پلا کے گرانا توسبھی کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری