کوئی کالم لکھنے کو جی نہیں چاہتا مگر میں کتنے کالم بانو آپا کیلئے لکھوں۔ ان کے لئے تو پوری کتاب لکھنا چاہیے۔ خدا کی قسم وہ پاکستان کی سب سے بڑی خاتون تھیں۔ ان سے زیادہ احترام کے قابل کوئی نہ تھا۔ وہ اس نسل کا آخری چراغ تھیں جس میں قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اشفاق احمد شامل تھے۔ مجھے ایک دن ان کے شوہر نامدار اشفاق احمد کہنے لگے کہ اجمل میرے پاس ایک محرومی ہے کہ میں بانو قدسیہ کو بانو آپا نہیں کہہ سکتا۔
میں نے ایک بار لکھا تھا کہ اے مرے دیس کی …. اور اچھی لڑکیو۔ ایک بار بانو آپا سے ضرور ملو۔ وہ میرے ساتھ بہت شفقت کرتی تھیں۔ برادرم عبدالستار عاصم اور بھابھی کنول عاصم ملتے اور کوئی دوسرا ملتا تو کہتیں اجمل بچے کا کیا حال ہے۔ اس سے کئی آدمی اپنے دل میں ہنس پڑتے کہ ستر سال کا بوڑھا بچہ کاش اتنا معصوم ہوتا جتنا بانو آپا سمجھتی تھیں۔
انہوں نے عظیم ناول راجہ گدھ لکھا۔ وہ بہت بڑی ادیبہ تھیں بلکہ ان کے جتنی کوئی ادیبہ اردو میں نہ ہو گی جو اسلوب ان کو عطا ہوا اس سے زیادہ کوئی انداز محبوب نہ ہو سکا۔ انہیں پڑھ کر محسوس ہوتا کہ اسلوب کا ایک ہی قافیہ ہے اور وہ محبوب ہے۔
ان کے جانے کی اطلاع مجھے برادرم عبدالستار عاصم اور بھابھی کنول عاصم نے دی۔ میں اور عاصم ان کے پاس گئے۔ میرا بیٹا سلمان خان ہمیں ان کے گھر تک چھوڑ آیا۔ وہ اندر آیا۔ کچھ دیر گم سم بیٹھا رہا پھر اُٹھ کر چلا آیا اور گاڑی میں بیٹھ کر اکیلا روتا رہا۔ وہ بھی بانو آپا سے ملا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایسی شفقت میں نے کہیں اور کبھی محسوس نہ کی۔ ان کا پیار مجھے بھولتا نہیں۔ ان کا پیار کسی کو نہیں بھولتا۔ میں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں اکیلے ہی رونا چاہتا تھا۔ وہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ پھر بھی خوفزدہ سا ہو گیا۔
میں سارا وقت برادرم اسیر احمد خان کے پاس بیٹھا رہا۔ یہ ان کی مہربانی تھی کہ وہ میرے پاس بیٹھے رہے۔
آخری کئی سال اسیر خان نے اپنی ماں کے ساتھ گزارے۔ اُسے بانو آپا نے خود بلا کے اپنے پاس رکھا۔ وہ سب سے بڑے بیٹے ہیں اور اپنی ماں کے ساتھ رہے۔ وہ کتنے خوش قسمت ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آخری عمر میں بانو آپا نے بولنا چھوڑ دیا تھا۔ حتیٰ کہ میرے ساتھ بھی گفتگو نہ کرتی تھیں۔ کبھی کبھی مجھے دیکھ لیتی تھیں۔
خدا کی قسم ان کی نگاہ میں ایسی چاہ تھی کہ وہ ہزار باتیں بھی کرتیں تو اس نگاہ غلط انداز کی اک ادائے ناز کا مقابلہ نہ ہو سکتا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ آئیں، انہوں نے دیکھا اور سب کچھ فتح کر لیا مگر انہوں نے دلوں کو ضرور فتح کر لیا تھا۔
اسیر احمد خان اُن کا بڑا بیٹا ہے۔ اُن کا اُس کے ساتھ ایک عجب محبت اور رفاقت کا رشتہ تھا۔ یہ زیادہ محبوب بات ہے کہ آدمی جس سے محبت کرے اس کے ساتھ رہے اور اس سے محبت کو قائم رکھے۔
کہا ہے عارفِ کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق
یہ تلہ گنگ کے ایک جینوئن درویش خدا مست شاعر مرحوم حیدر رضا کا شعر ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نے صرف یہی ایک شعر لکھا ہے۔ میں اُس کے لئے موت کے بعد انوکھی زندگی کی دعا کرتا ہوں۔ وہ میرے بڑے بھائی جان قلندر صفت انسان پروفیسر محمد اکبر خان نیازی کو بہت دوست رکھتے تھے۔ میں اُن کے لئے روتا ہوں اور یہی میری اُن کے لئے دعا ہے۔
بانو آپا تو میری دعا سے بہت بالاتر ہیں۔ وہ رات کے آخری وقت جیسی خاتون تھیں۔ وہ رات کے آخری پہر میں کسی روتی ہوئی خاتون کی دعا کی طرح تھیں۔ وہ کیا تھیں۔ یہ کوئی نہیں سمجھ سکے گا اور اسیر احمد خان کسی کو بتائے گا نہیں؟۔ وہ جانتا ہے کہ میں بانو آپا کے قدموں کی خاک اپنے دل کی خاک میں رلانا ملانا چاہتا تھا۔
وہاں مسلسل ایک آدمی کھڑا چپکے چپکے رو رہا تھا اور وہ نورالحسن تھا۔ میں گواہ ہوں کہ وہ بانو آپا سے دل و جان سے عقیدت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ جپھی ڈال کے کئی آنسو میرے دل کے آنگن میں آگرے۔
میں ٹیلی ویژن کیمرہ مین بھائیوں کے درمیان پھنسا ہوا کھڑا تھا کہ ایک شاندار جواں عمر بوڑھا بابا یحییٰ خاں آگیا۔ انہیں کسی نے کالے کپڑوں کے علاوہ کوئی لباس پہنے ہوئے نہیں دیکھا ہو گا۔ وہ کہتے ہیں کہ کالا رنگ عقیدت کا رنگ ہے۔ خانہ کعبہ کا غلاف کالا ہے۔ اللہ کا محبوب رنگ کالا ہے۔ حضور نے جتنی محبت ایک کالے سے کی، کسی سے نہ کی مگر سب سے کی۔ وہ بلال حبشیؓ ہیں۔ وہ مو¿ذن تھے۔
فتح مکہ کے بعد حضور کریم نے فرمایا کعبے کی چھت پر چڑھ جاﺅ اور اذان دو۔ وہ چھت پر حیران کھڑے رہ گئے۔ آپ نے فرمایا۔ اذان دو۔ انہوں نے عرض کیا مدینے میں کعبے کی طرف منہ کر کے اذان دیتا تھا۔ اب کیا کروں تو میرے محبوب و محترم رسول کریم نے فرمایا: ”منہ میرے وَل کر لو“
اے دنیا بھر کے مسلمانو! اپنا منہ محمد الرسول اللہ کی طرف کر لو مگر یہ ہماری قسمت میں کہاں۔ مگر میں نے آج بانو آپا کی طرف منہ کر لیا ہے۔ وہ عاشق رسول تھیں اور ولی اللہ تھیں۔ ان کی معرفت سے اللہ ہم پر رحم کرے اور بانو آپا کی زندگی کی برکتیں موت کے بعد بھی ہم پر عام رکھے۔