پاک فوج کی جنگی مشق رعدا لبرق نے دلوں کو گرما دیا اور حوصلوں کو قراقرم کی بلندیوں تک پہنچا دیا، کاش! وہاں چند کالم نویس بھی ہوتے، فیچر رائٹر بھی ہوتے، سرکاری لوگ بہت تھے، اسپیکر، وزیر خزانہ ا ور وزیر اعظم ، ان کی قطاریں تھیں مگر ا س قابل ناز تجربے کو تاریخ کے شاہنامے میں محفوظ کرنے والے قلم کار نظر نہ آئے،کوئی تحفظات ہوں گے ، کوئی و جہ ہو گی، شکر یہ ہے کہ یہ لائیو نشر ہو رہی تھی مگر لائیو کیمرے بھی پوری منظر کشی نہیں کر سکتے، وہ جذبات کو نہیںٹٹول سکتے،، کیمرے کی صلاحیت محدود ہوتی ہے، وہ چاروں طرف نہیں دیکھ سکتا۔
جنرل اسلم بیگ نے ضرب مومن کے آغاز پر ملک بھر کے ایڈیٹروںکو ایک ہفتے کے لئے ا س میں شرکت کا موقع بہم پہنچایا، ان میں زیڈ اے سلیری تھے، مصطفی صادق تھے، ارشاد احمد حقانی تھے، بشری رحمن تھیں، شیری رحمن تھیں ، رضیہ بھٹی تھیں، زاہد حسین تھے ،ضیا الاسلام انصاری تھے، راقم الحروف بھی تھا،بیرونی نامہ نگار بھی تھے،ا سکے بعدایک ماہ تک ہر بڑے چھوٹے اخبار سے ایک رپورٹر اس میں شامل ہوا اور ایک ماہ تک دفاعی رپورٹنگ کی عملی طور پر تربیت پائی۔اس تجربے نے بہت کچھ سکھایا۔ ہمیںلگا کہ فوج ہماری ہے، وہ ہم سے پردہ نہیںکرتی، اس کی دفاعی صلاحیت دیکھ کر ہمارے سینے فخر سے پھول گئے تھے۔ اب بری فوج کی مشقیں ہوتی ہیں، فضائیہ کی مشقیں بھی ہوتی ہیں اور بحریہ کی بھی مشقیں ہوتی ہیں، کچھ مشقیں بیرونی افواج کے ساتھ مشترکہ بھی ہوتی ہیں۔مگر ان میں سے کسی کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے، ایسی کوریج جو عوام کے دلوں میں اتر کر ان کی روح کو بالیدگی عطا کر دے۔انہیں احساس دلائے کہ کوئی موذی دشمن ان کے وطن کا بال بیکا نہیں کر سکتا، یہ احساس بیانات کے ذریعے ذہنوں میں انجیکٹ نہیں کیا جا سکتا۔
میں 1986 میں ملائشیا گیا، یہ سائنس جرنلزم کی تین ہفتے کی ایک ورکشاپ تھی، فزکس بھی ایک سائنس ہے اور نیوکلیر سائنس اس کا ایک حصہ، اس کی تفہیم کے لئے ہمیں ملائیشیا کے اٹامک ریسرچ ہیڈ کوارٹر لے جایا گیا اورہمیں موقع فراہم کیا گیا کہ ہم ایک ایٹمی ری ایکٹر کے اوپر کھڑے ہو کر ا سکے اندر تک جھانک سکیں ، ظاہر ہے ہم نے اس ری ایکٹر کے کوئی راز چوری نہیں کر لئے تھے،امریکہ جانا ہوا تو کینیڈی سپیس سنٹر، پینٹگان،اورناسا ہیڈ کوارٹر کا دورہ کروایا گیا، مگر کیا مجال کہ ہم اپنے ملک کے مایہ نازایٹمی سنٹر کہوٹہ میں پر بھی مار سکیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی وہاں جانے کی اجازت نہیں۔جنرل راحیل جانے سے پہلے یہ فیصلہ تو کرتے جائیںکہ کیا اس ملک کا ہر شخص سیکورٹی رسک ہے۔
ملکی دفاع میں عوام کی بھر پور شرکت کے لئے ان امور پر غور کیا جانا ضروری ہے جن کا میںنے تذکرہ کیا ہے۔
بدھ کے روز کی مشقیں اسی مقام پر ہوئیں جہاں ہر سال ہوتی ہیں ، یہیں پر جنرل ضیا کو الخالد ٹینک کی مشق دیکھنے کا موقع ملا تھا، مگر وہ واپس پنڈی نہ پہنچ سکے، رستے ہی میں ان کا جہاز پھٹ گیا، یہ صدر غلام ا سحق خاں کے الفاظ ہیں۔
خیر پور ٹامیوالی پر اگر ہمیشہ پاک فوج کی مشقیں ہوتی ہیں تو اس سال بھارت نے یہ اعتراض کیوں اٹھایا ہے کہ عین اسوقت جب دونوں ملکوںکے درمیان کنٹرول لائن پر سخت کشیدگی ہے، پاکستان نے بھارت کی سرحد کے قریب لائیو اسلحے سے مشقیں کی ہیں۔یہ شورو غوغا، ان مشقوں کو کسی لحاظ سے بھارت کی براس ٹیکس سے نہیں ملا سکتا، یہ ایسی مشقیں تھیں جن میں بھارتی فوج مختلف چھائونیوں سے نکل کر پاک سرحد کی طرف بڑھی، کسی فوجی مشق کے دوران لائیو اسلحہ استعمال نہیں ہوتا، الا یہ کہ کسی مخصوص مقام پر فائر پاور کا مظاہرہ کیا جاناہو اور اس کی ا طلاع بھی ہمسایہ ملک کو دی جاتی ہے مگر بھارت نے براس ٹیکس مشقوں کی کوئی اطلاع نہیں دی اور پھر اس کی جسارت دیکھئے کہ دشمن کے فرضی اہداف کے بجائے بھارتی فوج نے پاکستان کے حقیقی اہداف کے نام ستعمال کئے،اس پر پاکستان کو یقین ہو گیا کہ بھارت کسی شیطنت پرآمادہ ہے اور ہمیں بھی اپنی فوج کو چھائونیوں سے نکال کر سرحدوں پر مورچہ زن کرنا پڑا۔ اس طرح خطے میں صورت حال اس قدر کشیدہ ہوگئی کہ عالمی میڈیا میں ایسے تبصرے آئے کہ جنگ اور امن میں صرف ایک ٹریگر دبانے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔ اس کشیدگی کے خاتمے کے لئے جنرل ضیا نے ایک کرکٹ میچ دیکھنے کے لئے بھارت کے شہر جے پور کا سفر کیا، اس طرح کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح رائج ہوئی، اس میچ میں پروٹوکول کی خاطر بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بھی آنا پڑا۔جنرل ضیا رخصت ہونے لگے تو راجیو کے کان کے قریب ہونٹ لے گئے اور ان سے کہا کہ مہاراج! فوج واپس لے جاتے ہو، یا میںواپس جا کر ایٹمی بٹن دبا دوں، اور یاد رکھو ، ہندو ریاست دنیا میں صرف ایک ہے جبکہ مسلم ممالک کی تعداد پچاس سے اوپر ہے،اسلئے خدا نخواستہ پاکستان کے مٹ جانے سے عالم اسلام میں کوئی بڑی کمی نہیں آئے گی مگر کرہ ارض سے ہندوئوں کا نام ونشان ہمیشہ کے لئے اور مکمل طور پر مٹ جائے گا۔
ضرب مون مشقوں سے بھی پاکستان نے بھارت کو ایک کھلا پیغام یہ دیا کہ اگرا س نے جارحیت کی حماقت کی تو پاک فوج کے پاس اس قدر ریزرو فوج ہے کہ وہ اس کی مدد سے ڈیفنسو آفنسو لانچ کر سکتی ہے اور بھارتی پنجاب کے قلب میں پیش قدمی کرتے ہوئے بھارت کے اندر دو اڑھائی سو میل تک گھس جائے گی۔
بھارت نے اس امکان کو دور کرنے کے لئے پاک فوج کو دہشت گردی کی جنگ میں الجھا دیا ہے ا ور اب وہی ریزرو دو لاکھ فوج فاٹا اور بلوچستان میں بری طرح پھنسا دی گئی ہے ا ور بھارت کو اطمینان ہے کہ پاکستان سے ڈیفنسو آفنسو کی صلاحیت چھین لی ہے۔
مگر میں بھارت پر واضح کردوں کہ بہت پہلے اکہتر میں پاک فوج کے ایک دلیر میجر جنرل عبدالمجید ملک نے برق رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے قیصر ہند کے قلعے کے ارد گرد بھارتی فوج کا غرور خاک میںملا دیا تھاا ور اگر میں کوئی راز افشا کرنے کا مرتکب نہیں ہورہا تو ایک سرحدی باشندے کے طور پر جانتا ہوں کی صرف پانچ روز پیشتر قصور کے علاقے میں جنرل راحیل نے جن جنگی مشقوں کا معائنہ کیا ہے، ان سے بھارت کے ہوش ٹھکانے لگ گئے ہوں گے۔ان جنگی مشقوں سے فیروز پور ہیڈو رکس اور سلیمانکی ہیڈ ورکس کے درمیانی علاقے سے بھارتی جارحانہ پیش قدمی کے خطرات کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا گیا ہے، اب بھارت کو روایتی چونڈہ کے کھیتوں کا ہی رخ کرنا پڑے گا جو پینسٹھ میں بھی بھارتی بکتر بند ڈویژن کا قبرستان بنا دیا گیا تھا۔
میںنے یہ کیاکہہ دیا، کہ بھارت کو چونڈہ کے کھیتوں کا رخ کرنا پڑے گا، اگر بھارت نے بدھ کے روز والی جنگی مشق رعد البرق کا ذرا بھی مشاہدہ کیا ہے تو یقین کیجئے کہ وہ لائن آف کنٹرول یا عالمی سرحد سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ، اپنا جنگی شوق بلکہ جنون کوپورا کر نے کے لئے اسے مشین گنوں اور توپوںکی فائرتک محدود رہنا ہو گا۔ بس یہی ہے بھارتی جارحیت کی آخری حداورا س کی سرجیکل اسٹرائیک کی انتہا۔ باقی !ِ اللہ خیر رکھے گا۔
ترک صدر کہاکرتے ہیں کہ مسجدوںکے مینار میرے میزائل ہیں اور محراب میرے مورچے، کاش! وہ اپنے پاکستان کے دورے کے شیڈول پر نظر ثانی کرتے اور چند گھنٹے پیشتر یہاں آ جائے تاکہ خیر پور ٹامیوالی مشقیں دیکھ سکتے، انہیں وہ مورچے اور میزائل بھی دیکھنے کا موقع ملتا جن سے بھارت تھر تھر کانپتا ہے۔