نفیس صدیقی
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے 2 نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کو اچانک ختم کرنے کا جو اعلان کیا ، اسکے پس پردہ محرکات کے بارے میں اندازے لگائے جا رہے ہیں مختلف قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں ۔ یہ ایک انتہائی ڈرامائی سیاسی اقدام تھا ، جس کے بارے میں کئی سوالات کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ ان سوالوں کے جوابات تلاش کئے جائیں تو پاکستان کا موجودہ سیاسی منظر نامہ واضح نظر آنے لگے گا اور اس حوالے سے مستقبل کی پیشگوئی بھی کی جا سکے گی ۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ عمران خان کا یہ فیصلہ اچانک تھا یا انہوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ ایک مرحلے پر دھرنے کی کال واپس لے لیں گے ؟ اگر دھرنے سے پہلے کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کا فیصلہ کسی پیشگی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف نے دھرنے کو کامیاب بنانے اور دھرنے کے مقاصد حاصل کرنے کے لئےبہت محنت کی تھی اور پورے ملک میں اپنی پارٹی کے کارکنوں اور ہمدردوں کو متحرک کیا تھا ۔ اگر منصوبہ بندی کے تحت کسی مرحلے پر عمران خان نے دھرنا نہ دینے کا پہلے سے کوئی فیصلہ کر رکھا ہوتا تو وہ بڑے پیمانے پر دھرنے کی تیاری نہیں کرتے اور وفاقی حکومت بھی دھرنے کو روکنے کے لئے اتنے سخت اقدامات نہیں کرتی ۔ اس دھرنے کا مقصد یہ بیان کیا گیا تھا کہ پاناما پیپرز کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم سے استعفیٰ لیا جائے گا اور انہیں اپنا احتساب کرانے کے لئے مجبور کیا جائے گا ۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ 2 نومبر کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو نہیں چلنے دیا جائے گا ۔ یہ بہت بڑا سیاسی ہدف تھا اور اس کے لئے تیاری بھی بہت کی گئی تھی ۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کو بھی اسی مقصد کے تحت متحرک کیا گیا تھا ۔ دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین بار بار خبردار کر رہے تھے کہ تصادم کی سیاست کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور پاکستان تحریک انصاف کو خاص طور پر کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو گا ۔ یہ بھی باور کرایا گیا تھا کہ اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو سکا تو تحریک انصاف کو سیاسی طور پر نقصان ہو گا اور اس کے کارکنوں میں مایوسی پیدا ہو گی لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت نے اس انتباہ کو نظرانداز کر دیا تھا ۔ دھرنا ختم کرنے کے اسباب کچھ بھی ہوں ، میرے خیال میں عمران خان کا یہ فیصلہ دانشمندانہ ہے ۔ اگرچہ اس وقت عمران خان پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں سب سے بلند قامت سیاست دان ہیں اور وہ سیاسی طور پر بہت مقبول بھی ہیں لیکن ان کے بہت سے فیصلے ایک زیرک اور تجربہ کار سیاست دان کے فیصلے قرار نہیں دیئے جا سکتے ۔ انہوں نے دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ جن حالات میں بھی کیا ہے ، وہ ان کا سیاسی فیصلہ ہے اور بہت حد تک درست ہے ۔ اگرچہ اس فیصلے سے انہیں سیاسی طورپر نقصان اٹھانے کا بھی خدشہ ہے ۔ انہوں نے اپنے اس فیصلے کا یہ جواز بتایا ہے کہ وہ عدلیہ پر اعتبار کرتے ہیں اور پاناما پیپرز کے حوالے سے کیس میں سپریم کورٹ نے جو راستہ اختیار کیا ہے ، وہ ان کے لئے قابل قبول ہے ۔ اب اس بحث میں نہیں الجھنا چاہئے کہ مذکورہ کیس کی سماعت دھرنے کے بعد ہونی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اپنا روسٹر تبدیل کرکے دھرنے سے ایک دن پہلے یکم نومبر کو کیس کی سماعت کی ۔ایک دن میں ہی سیاسی تصادم کا ماحول ختم ہو گیا اور پوری قوم اعصاب شکن صورت حال سے نکل آئی ۔ ہمیں یہ سوال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ سپریم کورٹ نے پہلے اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے سے کیوں انکار کیا تھا اور اب وہ نہ صرف جوڈیشل کمیشن بنانے پر راضی ہے بلکہ اس کمیشن کے فرائض و اختیارات ( ٹی او آرز ) بھی خود وضع کرنے پر تیار ہے بشرطیکہ فریقین ٹی او آرز پر متفق نہ ہوں ۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوا ، اچھا ہوا ۔
اس وقت پاکستان کی سیاسی صورت حال کو نہ صرف ماضی کے تسلسل میں دیکھنا چاہئے بلکہ موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی عوامل کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ ہم نے تحریک انصاف کے دھرنے کے اعلان ، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال اور دھرنے کا اعلان واپس لینے سے یہ سبق سیکھا ہے کہ پاکستان کی سیاست پر کئی داخلی اور خارجی عوامل اثرانداز ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ ان عوامل کے اثرانداز ہونے کے باوجود حالات خراب نہیں ہوئے بلکہ بہتری کی طرف جا رہے ہیں ۔ جمہوریت پٹری سے نہیں اتری ، جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ موثر احتساب کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے ۔ معاملہ اب سپریم کورٹ کے پاس ہے۔ پاناما پیپرز کا کیس انتہائی اہم ہے اور سپریم کورٹ پر اس کیس کا فیصلہ کرنے کی تاریخی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ جلد جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کرے گی اور اس کے ٹی او آرز بنانے میں حائل رکاوٹوں کو بھی عبور کر لے گی ۔ جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کی روشنی میں سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی ۔ ہماری عدلیہ بہت باوقار ہے اور ماضی کی عدلیہ سے بہتر ہے ۔ اس کیس کے فیصلے پر بھی پاکستان کے سیاسی مستقبل کا انحصار ہے ۔
بعض حلقوں کی اس رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن میرے خیال میںاسکے ساتھ ساتھ بعض دوسرے عوامل بھی ہیں ۔ موجودہ سیاسی حالات میں عمران خان سب سے زیادہ متعلق سیاست دان ہیں لیکن انہیں اور دیگر سیاست دانوں کو حالیہ واقعات سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔ عمران خان نے 2 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کی بجائے جلسہ عام منعقد کیا ۔ ان کے سیاسی مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ جلسے میں اتنے لوگ نہیں تھے ، جتنا تحریک انصاف کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا تھا ۔ میرے خیال میں دھرنے کا اعلان واپس لینے کے بعد عمران خان نے جلسہ منعقد کیا ہے اور اس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے شرکت بھی کی ہے ،دوسرے ان کے آدھے بھی جمع نہیں کر سکتے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ عمران خان کا ہر فیصلہ ان کی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو قبول ہے اور وہ ہر حال میں عمران خان کے ساتھ ہیں ۔ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں عمران خان کہاں ہوں گے ۔ یہ حالیہ سیاسی ’’ Episode ‘‘ کا گہرا تجزیہ کرنے سے ہی اندازہ ہو گا ۔ عمران خان کی ذاتی مقبولیت بہت زیادہ ہے ، ان میں توانائی بھی ہے اور وہ بہت محنت بھی کرتے ہیں لیکن انہیں سیاسی انداز میں فیصلے کرنے کی روش اختیار کرنا ہو گی ۔ سیاسی انداز میں فیصلے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی حالات کا ماضی ، حال اور مستقبل کے تناظر میں ادراک ہونا چاہئے اور ان عوامل پر نظر ہونی چاہئے ، جو سیاست پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ ان باتوں کا عمران خان کو ہی نہیں دیگر سیاست دانوں کو بھی خیال کرنا چاہئے ۔ پاکستان کی سیاست پر بہت طاقتور داخلی اور خارجی عوامل اثرانداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بہت کم عرصے میں یہ بات واضح ہو جائے گی کہ پاکستان کے حالات کس طرف جا رہے ہیں ۔