ادب، علم کی وہ شاخ ہے جو ذہنوں کی بلوغت اور نشوونما میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم حاصل کرتے دوران یاتعلیم سے فراغت کے بعد انسان کتابوں سے بڑی حد تک متاثر بھی ہوتا ہے اور ان سے اپنی سوچ و فکر بھی مستعار لیتا ہے۔ تعلیم کے شعبے سے متعلق اساتذہ بھی زیادہ تر اپنے اپنے عہد کے ناول نگاروں، تجزیہ نگاروں اور لکھاریوں کی سوچ سے متاثر ہوکر انہی نظریات کو معاشرے کے تعلیمی نظام کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کی نشوونما میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
ہماری ادبی تاریخ بھی دیگر شعبہ جات کی طرح اجارہ داری اور نرگسیت سے بھرپور دکھائی دیتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ریاست کے دفاعی اور مذہبی بیانیے کو عام ذہنوں سے ہم آہنگ کرنے کےلیے جہاں بہت سے شعبوں کا بیڑہ غرق کیا گیا ان میں سے ایک اردو ادب اور اردو صحافت کا بھی شعبہ ہے۔ قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی وفات کے بعد اور خاص طور پر ایوب خان کے مارشل لا کے بعد جہاں ملک میں تنگ نظری اور عدم برداشت کو فروغ ملا وہیں اردو ادب اور اردو صحافت کے شعبے میں بھی بدقسمتی سے تنگ نظری کی ایک چھتری آہسته آہستہ بنتی چلی گئی اور نتیجتاً ہم اردو ادب و صحافت میں شاہ دولہ کے چوہوں کو ناول نگاری اور تجزیہ نگاری کا علم اٹھائے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔
عصمت چغتائی، امرتا پریتم اور سعادت حسن منٹو جیسے ادیب ناپید ہوگئے اور ان کی جگہ مذہبی لکھاریوں نے لے لی جنہوں نے افسانوی اور رومانوی کرداروں کو بھی مسلمان اور کافر کی جنگ بنا دیا۔ قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے بیورو کریٹس جو ساری زندگی آمروں کا دم بھرتے رہے اور ان کی غلط پالیسیوں کو من و عن ہمارے معاشرے پر تھوپنے کے جرم میں برابر کے شریک رہے، انہوں نے روحانیت کا لبادہ اوڑھا اور بس پھر گویا اردو ادب نے ہی ایک طرح سے یہ لبادہ اوڑھ لیا۔
ایسے تمام لکھاری جو اس سوچ سے اختلاف رکھتے تھے، ان کی کتابوں کو اول تو پبلشر ہی میسر نہ ہوتا، اور اگر خوش قسمتی سے کوئی بھولا بھٹکا کاتب مل بھی جاتا تو دکانوں کے شیلف سے کتابیں اٹھوا دی جاتیں۔ افغان جہاد کے دوران ضیاء الحق کے دور میں تو اردو ادب کو عوام کے ذہنوں سے کھیلنے کےلیے ریاستی طور پر استعمال کیا گیا۔ نسیم حجازی اور طارق اسماعیل ساگر جیسے لکھاری جو محض مسلمان کافر جنگ اور عہد گم گشتہ کے جنگ و قتال کی معلومات رکھتے تھے، ان کو مصنوعی طریقے سے قارئین پر تھوپا گیا۔ جنہوں نے ایک مسخ شدہ تاریخ ذہنوں کو ازبر کروا دی۔ آج بھی ہمارے ہاں لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان لکھاریوں سے متاثر نظر آتی ہے۔ عمیرہ احمد اور ان جیسے لکھاری اس کی تازہ مثال ہیں۔
دور جدید میں جب سائنس، ٹیکنالوجی اور نفسیاتی علوم میں بے پناہ ترقی کے بعد انسانی خیالات اور سوچ کا محور انتہائی سبک رفتاری سے تبدیل ہوا ہے، وہاں اب بھی ہمارے ہاں یہ لکھاری مذہبی چورن اور تصوف کو بنیاد بنا کر ایک ہی عنوان کو بار بار مختلف تحریروں میں ڈھال کر اس جمود سے باہر آنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
افسانہ نگار کا کام تخلیق کا ہوتا ہے اور تخلیقی مواد لکھنے کےلیے بے حد ضروری ہے کہ افسانہ نگار کی سوچ جامد نہ ہو اور نہ ہی اس کے خیالات کی وسعت محض ایک ہی خیال کے ارد گرد گھومتی رہے۔ ہمارے معاشرے میں سب سے آسان کام مذہب کے نام پر اپنا اپنا چورن بیچنا ہے جسے یہ لکھاری حضرات سب سے آسان گردانتے ہوئے اپنے موضوع کا حصہ بنا کر سستی شہرت حاصل کرنے کا زینہ سمجھتے ہیں۔
جب ایک قاری کو پڑھنے کےلیے نرگسیت اور عہد رفتہ سے جڑا مواد ملے تو اس کا رجحان فطری طور پر نرگسیت پسندی اور تعصب پرستی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ آپ عہد حاضر کے کسی بھی مصنف کی تحریریں اٹھا کر دیکھیے، آپ کو زیادہ تر مواد تخلیق سے عاری اسلاف پرستی یا مذہبی و قومی نرگسیت سے متعلق ملے گا۔ اکثر افسانوں کے مرکزی کردار ہیرو یا ہیروئن یا تو کٹر مذہبی ہوں گے یا پھر بیرونی سازشوں سے پاکستان کو بچاتے دکھائی دیں گے۔ نتیجتاً معاشرے کی مجموعی سوچ بھی کچھ ایسی ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔
وہ معاشرتی موضوع اور مسائل جنہیں عبداللہ حسین یا منٹو جیسے لکھاری موضوع تحریر بناتے تھے، اب ناپید نظر آتے ہیں۔ ایک دوسرا انتہائی اہم موضوع کہ جو اکثر و بیشتر تحاریر میں نظر آتا ہے، وہ تصوف کا ہے۔ تصوف ہو یا مذہب، یہ اپنے اپنے سانچوں میں ڈھلے اچھے لگتے ہیں۔ ان کو افسانہ نگاری میں حد سے زیادہ شامل کرکے ایک طرح سے ادبی فرقہ واریت اور ادبی جمود میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے۔ افسانہ نگار یا ناول نویسوں کو تو چھوڑیئے، حالات حاضرہ پر لکھنے والے دانشور اور تجزیہ نگار بھی اس سے آزاد نہیں نظر آتے۔ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر کالم تجزیہ لکھنے والے بھی نسیم حجازی اور طارق اسماعیل ساگر کا صحافتی ورژن دکھائی دیتے ہیں۔ جن کی تحریروں سے اگر نسیم حجازی کی افسانوی تاریخ نکال دی جائے تو شاید ان کے پاس لکھنے کو کچھ باقی نہیں بچے گا۔
یہ حضرات بجائے تجزیوں میں معروضی حالات و واقعات اور دلیل کا سہارا لینے کے ایک افسانوی تاریخ کے فرضی یا پھر من گھڑت واقعات اور کرداروں کو لے کر آج کی جدید دنیا سے تقابل کرکے تجزیات پیش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ کیونکہ انسان فطری طور پر عہد رفتہ یا ماضی کو پسند کرتا ہے اس لیے یہ تحریریں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔
دوسری جانب عہد حاضر کے تقاضوں اور حقیقتوں پر مبنی تحاریر کیونکہ تلخ ہوتی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کو انہیں ہضم کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ نسیم حجازی جیسے مصنفین کے لکھنے کے اس اسلوب نے معاشرے کے زیادہ تر افراد کو قدامت پسندی اور لکیر کا فقیر بننے پر مجبور کر دیا ہے۔ گو نئے لکھنے والے اب اس جمود کو توڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن دلی ہنوز دور است۔
انگریزی ادب یا تجزیہ نگاری البتہ اس بیماری سے محفوظ ہیں اور محسن حمید جیسے کئی ناول نگار اپنی کاوشیں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انہیں یا تو بیرونی طاقتوں کا آلہ کار یا پھر دیسی لبرل کا لیبل لگا کر پڑھنے والوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ادب و صحافت کے شعبہ جات نہ تو کسی کی جاگیر ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں مخصوص انداز فکر کا قیدی بنایا جاسکتا ہے۔
اگر چورن فروش اپنا چورن بیچنے میں آزاد ہیں تو تحقیق اور جستجو کرنے والے لکھاریوں کو بھی آزادی ملنی چاہیے کہ وہ بھی اپنے خیالات بنا کسی قدغن یا خوف کے عام ذہنوں تک پہنچائیں اور پھر فیصلہ قارئین پر چھوڑا جائے۔ حال ہی میں سوات میں بچیوں کے ساتھ پیش آنے والی ویڈیو سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کو لے کر جس طرح چورن فروشوں نے آہ و بکا کی کہ دیکھئے ہم نہ کہتے تھے یہ بیرونی سازش ہے اور فرداً فرداً طالبان کے خلاف لکھنے اور بولنے والوں پر جو طنز و تنقید کے نشتر برسائے وہ اس سوچ کے تعصب زدہ اور کھوکھلا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
کیا ایک لکھاری صرف اپنی انا کی جیت یا مؤقف کے درست ہونے کےلیے لکھتا ہے؟ یقیناً سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے اور بالخصوص تجزیاتی دنیا میں تجزیئے غلط بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ایک اچھا تجزیہ گار یا لکھاری انہیں تسلیم کرکے آگے بڑھتا ہے کہ زمان و مکاں کی لامحدود وسعتوں میں انا کی جنگ بے معنی اور بے مصرف ہوتی ہے۔ ویسے بھی ادبی اور صحافتی چورن فروشوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ان کے خیالات اور سمجھ اس نقطے پر مرکوز و محدود ہے کہ جو کچھ یہ تحریر کریں، اسے من و عن نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اس پر صدق دل سے ایمان بھی لایا جائے۔
ایک ادیب یا تجزیہ نگار کا کام اپنی سوچ، معلومات اور نقطہ نظر کو عوام الناس تک پہنچانے کا ہوتا ہے۔ اس کے اچھے یا برا ہونے کا فیصلہ قارئین کو کرنا ہوتا ہے نہ کہ ان ادبی چورن فروشوں کو کہ جو محض اوراق کو قلم کی سیاہی سے سیاہ کرنے کو لکھنا سمجھتے ہیں۔ اب زمانہ تبدیل ہو رہا ہے اور ان ادبی و صحافتی چورن فروشوں کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ چورن فروشی کا دور گزر چکا ہے۔ یہ علم و تحقیق کا دور ہے جہاں دلائل اور منطق کی بنیاد پر کسی بھی تحریر یا نقطہ نظر کو قبول کیا جاتا ہے نہ کہ محض اندھی عقیدت یا پھر نرگسیت کے نام پر۔
ہمارے عہد کا المیہ ہے کہ ہماری سوچوں اور ان کے زاویوں کو قید کرکے انہیں ایک مصنوعی اور کبھی ختم نہ ہونے والے ذہنی بنجر پن اور قحط الرجال کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ جب تخلیق کی جگہ تابعداری اور تحقیق کی جگہ تقلید کو مل جائے تو پھر ادب ہو یا صحافت، دونوں جمود کا شکار ہوکر بے کیف، بے اثر اور لایعنی ہوجایا کرتے ہیں۔