پاکستان میں درجنوں ایسے قلعے موجود ہیں جن کی صدیوں پرانی تاریخ اورطرز تعمیر سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ خطہ صدیوں سے امن اور جنگ و جدل کا محاذ بنا رہا ہے ۔کئی قلعوں کی تعمیر اس دور کے طالع آزماوں اور جنگجووں کی حکمت عملی اور اعلٰی عسکری ذہانت کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے اور انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جدید مشنری جس کام کو انجام دینے میں ناکام ہوجاتی ہے ،وہ عمارتیں صدیوں پہلے صرف انسانی ہاتھوں سے تعمیر کردی گئی تھیں ۔ابھی تک یہ بات تحقیق طلب ہے کہ آخر اتنی زیادہ مضبوط عمارتوں اور قلعوں کی تعمیر کے لئے کس طرح کے ذرائع استعمال کئے جاتے تھے ، جہلم کے خطہ میں قلعہ روہتاس کو دیکھ کر ایسا ہی احساس ہوتا ہے کہ جنگل اور پہاڑوں میں تعمیر کیا جانے والا یہ چار سو ایکٹر پر محیط قلعہ جب بنایا گیا تھا تو شیر شاہ سوری جیسے جرنیل نے اسکی تعمیر میں کتنے ماہرین کی خدمات حاصل کی ہوں گی ۔بیاں کیا جاتا ہے کہ قلعہ روہتاس صرف انسان کی ظاہری عظمت اور فن تعمیر کا شاہکار ہی نہیں اسے شیر شاہ سوری سے محبت کرنے والے بزرگان دین نے بھی اپنے ہاتھوں اور باطنی قوتوں سے تعمیر کیا تھا ۔پاکستان بھر میں قلعہ روہتاس ایسا قلعہ ہے جو عام اینٹوں کی بجائے بھاری پتھروں سے تعمیر کیا گیا اور یہ بھاری پتھر اونچی دیواروں اور میناروں تک بھی پہنچائے گئے جس میں بزرگان دین کی کرامات کا دخل تھا کہ پتھروں روئی کے گالوں کی طرح اٹھا کر اوپر لے جائے جاتے تھے ، روایات کے مطابق جب شیر شاہ سور ی اس جنگل سے گذرا تو اسے ایک فقیر نے یہاں قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت کی ۔اس قلعہ کی تعمیر کا سبب یہ تھا کہ شیر شاہ سوری مغلوں اور پنجاب کے حملہ آوروں سے خطہ پوٹھوہار سے خیبر تک اپنی حکومت کو محفوظ رکھنا چاہتا تھا ، لہذا سات سال (1541 ءتا 1548ء)تک تین لاکھ مزدوروں کی مدد سے تیار ہونے والے قلعہ میں بے شمار بزرگان دین نے بھی مزدورں کے ساتھ کام کیا ۔جب یہ قلعہ تعمیر ہوگیا تو یہ اپنی نوعیت کا اتنا بڑا قلعہ تھا کہ اس میں ساٹھ ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے، قلعہ روہتاس کی تعمیر میں بزرگان دین کا خون پسینہ بھی شامل ہے ،اسکا ثبوت اس قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ موجود کسی نہ کسی بزرگ کا وہ مقبرہ ہے جس نے قلعہ کی تعمیر میں اپنی جان تک قربان کردی ۔ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں اور ایسا مقام کسی اور قلعہ کو حاصل نہیں ہے، دوسری جانب صادقین کے حوالے سے خبر یہ ہے کہ اسلامی خطاطی میں بلند مقام حاصل کرنے والے مصور صادقین کو اللہ تعالٰی نے ایسا کما ل ہنر عطا فرمایا تھا کہ انکے ہاتھوں سے سورہ رحمٰن کی خطاطی دیکھ کر کافر بھی مسلمان ہوجایا کرتے تھے ۔وہ حقیقت میں انتہائی درویش اور دریا دل خطاط تھے جو بغیر پیسے اور خودنمائی کے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی فرمائش پر منٹوں میں خطاطی کے نادر نمونے بنا کر دے دیتے جو ان کے گھروں کی زینت بن جایا کرتے تھے ۔انہوں نے اسلامی خطاطی کے نادر نمونے بغیر معاوضہ لئے تخلیق کئے اور کبھی کسی امیر ترین کو بھی اپنی یہ پینٹنگ فروخت نہیں کی تھیں لیکن انکے انتقال کے بعد ان کے عزیزوں اور دوستوں نے انکی پینٹنگ سے کروڑوں روپے کمائے ۔ قیام پاکستان سے قبل امروہہ میں جنم لینے والے سید صادق احمد نقوی ” صادقین“ کے نام سے معروف ہوئے