یہ 1953 کے آخری دنو ں کی بات ہے۔ رات گئے امروز کراچی کے دفتر میں ٹیلی پرنٹر کی گڑگڑاہٹ میں ایڈیٹر قاضی ابرار اداریہ لکھ رہے تھے۔ نیوز ایڈیٹر ہارون سعد ٹیلی پرنٹر کی خبریں چھانٹ رہے تھے۔ ان کے سامنے ایک پتلی سے میز پر حیدر علی، مصعب اور میں خبروں کا ترجمہ کر رہے تھے اور ملحق انتظامیہ کے بڑے کمرے میں رپورٹر جعفر نقوی اور منظر صاحب اپنی رپورٹس لکھ رہے تھے کہ اچانک کھدر کی شیروانی اور چوڑی دارپجامہ میں ملبوس، گول فریم والی عینک لگائے کھرج دار آواز میں ‘لڑکو، کیا حال ہے’ کہتے ہوئے ایک صاحب دفتر میں داخل ہوئے۔ یہ پاکستان ٹائمز اور امروز کے مالک اور آزاد پاکستان پارٹی کے قائد میاں افتخار الدین تھے جو آرام باغ میں اپنی پارٹی کے جلسہ عام سے خطاب کرکے آ رہے تھے۔
پورا عملہ انہیں انتظامیہ کے بڑے کمرے میں لے گیا۔ بیٹھتے ہی انہوں نے اپنی شیروانی کی جیبوں سے میٹھے پان کی پڑیاں نکالیں اور ایک ایک کر کے سب کو دینی شروع کردیں۔ گنگا جمنی نوابوں کو تو پان کا بڑا سا بٹوہ رکھے دیکھا تھا لیکن پہلی بار پنجاب کے ایک جاگیر دار کو یوں پان کی پڑیاں شیروانی کی جیب سے نکالتے دیکھ کر حیرت ہوئی۔
میاں صاحب زور دار قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگے، ‘لڑکو یہ پان رشوت نہیں کہ میری تقریر شہہ سرخی کے ساتھ شائع کرنا۔’ دیر تک ان کے قہقہہ کی آواز دفتر میں گونجتی رہی۔ پھر جعفر نقوی اور منظر الحسن سے پوچھنے لگے کہ جلسہ عام میں ان کی تقریر کیسی رہی؟ جعفر نقوی نے اپنی بھرپور مسکراہٹ کی آڑ میں شکایت کی کہ انہوں نے لاہور مین ختم نبوت کی تحریک سے نبٹنے کے لئے فوج بھیجنے کے فیصلہ کی اتنی سختی سے مذمت نہیں کی جتنی کہ امید تھی۔ میاں صاحب کہنے لگے وقت بہت کم تھا اور دیر بہت ہوگئی تھی، اس لئے پوری بات نہیں ہو سکی۔ لیکن میں یہ معاملہ کھل کر دستور ساز اسمبلی میں اٹھائوں گا۔
ہارون سعد جنہیں پہلی کاپی پریس بھجوانے کی جلدی تھی، بار بار اپنی کلائی گھڑی کی طرف دیکھ کر کسما رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میاں صاحب نے کہا کہ میں آپ کے کام میں مخل نہیں ہونا چاہتا۔ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کھڑے ہوئے اورسب سے مصافحہ کرتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
یہ تھی میری میاں صاحب سے پہلی ملاقات۔ ان کی سادگی، اپنے ادارے کے کارکنوں کے ساتھ دوستوں کی طرح مل جانے اور ان کے چہرے پر شگفتہ مسکراہٹ سے میں بے حد متاثر ہوا۔ پاکستان ٹائمز اور امروز کی ادارتی پالیسی اور خبروں میں میاں صاحب کی عدم مداخلت، عقیدہ کی طرح پختہ تھی۔ اس بارے میں وہ قصہ بہت مشہور ہے جب چیانگ کائی شیک کے بارے میں امروز کے ایک اداریہ پر احتجاج اور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے میاں صاحب، ایڈیٹر مولاناچراغ حسن حسرت کے دفتر میں داخل ہوئے۔ حسرت صاحب نے بڑے اطمینان سے شہات کی انگلی اور دوسرے انگلی کے بیچ دبے ہوئے سگریٹ کا زور دار کش لیا جس سے ان کی بڑی بڑی سرخ آنکھیں اور پھیل گئیں۔ پھر بڑی ملائمت سے اپنے تکیہ کلام ”مولانا” کہتے ہوئے میاں صاحب سے مخاطب ہوئے کہ، ‘یہ ایڈیٹر کا فرض ہے کہ وہ اخبار کی پالیسی کے مطابق اداریہ لکھے۔ مولانا! ہم نے صحافت اس زمانہ میں شروع کی تھی جب آپ برخوردار تھے۔’
میاں صاحب یہ تاویل پیش کرتے رہے کہ ان کا مقصد ایڈیٹر کے فرائض میں مداخلت کرنا نہیں تھا بلکہ وہ محض اپنی رائے ظاہر کر رہے تھے۔ مولانا حسرت خاموشی سے فاتحانہ انداز سے سگریٹ کا کش لگاتے رہے۔
پاکستان ٹائمز اور امروز کے ادارتی عملہ کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ میاں صاحب نے کبھی ادارتی پالیسی میں مداخلت نہیں کی اور نہ اپنی شہرت کے لئے اخبارات کو استعمال کیا۔
ستمبر 1956 میں جب حسین شہید سہروردی وزیر اعظم بنے تو انہوں نے عوامی لیگ کو ہدایت کی کہ وہ مخلوط انتخاب کی حمایت میں کراچی سے پنجاب تک مہم چلائے۔ اس مہم کے لئے محمود الحق عثمانی کی قیادت میں عوامی لیگ کے رہنمائوں کا جو وفد کراچی سے روانہ ہوا، میں ایک صحافی کی حیثیت سے اس کے ساتھ تھا۔ لاہور میں اس دفد کی میاں صاحب نے باغبان پورہ میں اپنی شاندار حویلی میں دعوت کی تھی۔ میں ایک انقلابی کی ایسی شاندار حویلی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ امروز کے عبداللہ ملک میرے ساتھ تھے، کہنے لگے میاں صاحب کے آبائو اجداد شاہ جہاں کے زمانہ سے شالیمارباغات کے نگران تھے۔ شالیمار کے نقار خانہ کی چابیاں بھی میاں صاحب کے خاندان کی تحویل میں رہتی تھیں۔ میں نے ملک صاحب سے پوچھا کہ کیا اب بھی میاں صاحب کا خاندان شالیمار باغات کا نگران ہے۔ کہنے لگے نہیں۔ ایوب خان کے مارشل لاء کی میاں صاحب نے شدید مخالفت کی تو فوجی آمر نے شالیمار باغات کی نگرانی میاں صاحب کے خاندان سے چھین لی اورباغات سرکاری ملکیت میں لے لیے۔ ایوب خان البتہ میاں صاحب کے خاندان کا یہ اعزاز نہ چھین سکے جو ممتاز شخصیات کی بدولت اسے حاصل تھا۔ ان کے خاندان کے میاں محمد شفیع، آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں تھے اور ایک عرصہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر رہے، پھر میاں عبد الرشید، پاکستان کے پہلے چیف جسٹس تھے۔
عبداللہ ملک ایک خوب صورت تین نشستی صوفہ کو اپنی زیادہ سے زیادہ تحویل میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے بولے کہ یہ صوفہ تاریخی ہے اور در اصل پورا ہال تاریخی ہے کہ یہاں اس زمانہ میں جب میاں صاحب آل انڈیا کانگریس کے ممبر اور پنجاب کانگریس کے صدر تھے، نہرو اور کانگریس کی اعلیٰ قیادت جمع ہوتی تھی۔ اسی ہال نے میاں صاحب کو گاندھی، نہرو، مولانا آزاد، عبد الغفار خان اور کانگریس کے دوسرے رہنمائوں کے ساتھ فرش پر بیٹھے دیکھا ہے۔
میاں صاحب 1936 میں کانگریس میں شامل ہوئے تھے اور 137 میں کانگریس کے امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور بڑی تیزی سے 1940 میں پنجاب کانگریس کے صدر کے عہدہ تک پہنچے۔ عمر اس وقت ان کی 33 سال تھی۔ 1944/45 میں ہندوستان میں سیاسی حالات بدل رہے تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک سیاسی منظر پر چھائی ہوئی تھی۔ مسلم لیگ کے ساتھ اس تحریک میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی پیش پیش تھی۔ 1944 میں پارٹی نے پاکستان کے مطالبہ کی حمایت میں باقاعدہ ایک قرار داد منظور کی تھی۔ پارٹی کے نظریاتی رہنما، ڈاکٹر ادھیکاری نے پاکستان کی تحریک کو مسلمانوں کی قومی خود ارادیت کی عوامی تحریک قرار دیا تھا۔ اسی بنیاد پر کمیونسٹ پارٹی نے اپنے مسلم اراکین سے کہا تھا کہ وہ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔
اس زمانہ میں پارٹی کے اہم رہنما سجاد ظہیر نے، میاں افتخار الدین کو کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ جناح صاحب کی بھی خواہش تھی کہ میاں صاحب مسلم لیگ میں شامل ہوں۔ میاں صاحب عجلت میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھے لیکن جب 1945میں کانگریس نے پاکستان کے مطالبہ کو تسلیم کرنے کے بارے میں راج گوپال اچاریہ کا فارمولا مسترد کردیا تو میاں صاحب کے لئے فیصلہ آسان ہوگیا اور وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ کانگریس چھوڑنے پر نہرو کو اس قدر صدمہ ہوا کہ وہ میاں صاحب پر اس بری طرح سے چیخے کہ ان کی آواز پھٹ گئی۔ گاندھی جی کو بھی بے حد افسوس ہوا تھا۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ یہ میرے پیارے دوست کا فیصلہ ہے۔ اس کی جو مرضی، اگر وہ خوش تو میں بھی خوش ہوں۔
جناح صاحب کو اس کا شدید احساس تھا کہ گو دلی میں مسلم لیگ کا ترجمان اخبار ” ڈان” شائع ہو رہا ہے لیکن پنجاب میں مسلم لیگ کا کوئی ترجمان اخبار نہیں ہے۔ چنانچہ جناح صاحب نے یہ فریضہ میاں صاحب کو سونپا جنہوں نے فی الفور پروگریسیو پیپرز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس نے قیام پاکستان سے چھہ ماہ قبل لاہور سے پاکستان ٹائمز شائع کرنا شروع کیا۔ یہ میاں صاحب کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے ترقی پسند صحافیوں کی ایک کہکشاں جمع کی۔ فیض صاحب چیف ایڈیٹر، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر مظہر علی خان، امروز کے ایڈیٹر مولانا چراغ حسن حسرت اوران کے ساتھی احمد ندیم قاسمی۔ بعد میں اس ادارہ سے شائع ہونے والے جریدہ لیل و نہار کے ایڈیٹر سید سبط حسن۔
آزاد اور معیاری صحافت کے علم دار جو آزاد خارجہ پالیسی، سوشلسٹ اقتصادی پالیسی اور معاشرہ کی ترقی پسند اقدارکے حامی اخبارات نے بڑی تیزی سے آزاد خیال ذہنیت کو فروغ دینا شروع کیا۔ لیکن جب فوجی طالع آزما ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو سب سے پہلا وار پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار کو بنایا اور اسے حکومت کی زنجیروں میں ایسا جکڑا کہ بہت جلد یہ ادارہ دم توڑ بیٹھا۔ فوجی طالع آزما کا یہ دہرا وار تھا۔ ایک طرف جمہوریت کے خلاف اور دوسری جانب آزاد صحافت کے خلاف۔
مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دوسرے ہی سال میاں صاحب پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور قیام پاکستان کے بعد میاں صاحب پنجاب مسلم لیگ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انہیں پاکستان آنے والے پناہ گزینوں کی آباد کاری کا وزیر مقرر کیا گیا۔ لیکن آباد کاری کے بارے میں میاں صاحب کی جو حکمت عملی تھی اس پر مسلم لیگ کی مرکزی قیادت متفق نہیں تھی۔ میاں صاحب چاہتے تھے کہ جو کاشت کار ترک وطن کر کے پاکستان آئے ہیں انہیں متروکہ اراضی تقسیم کی جائے اور متروکہ جائیداد حکومت اپنی تحویل میں لے کر ضرورت مندوں کو سستے کرائے پر دے۔ لیکن بڑے بڑے زمیندار، متروکہ اراضی کی تقسیم کے خلاف تھے اور مسلم لیگ کے سیاست دان، اپنے سیاسی مفاد کی خاطر متروکہ جائیداد کلیمز کے عوض الاٹ کرنا چاہتے تھے۔ یہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت سے میاں صاحب کی مایوسی کے احساس کا۔
ایک روز سبطے بھائی سے کشمیر کے مسئلہ پر بات چیت ہو رہی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ 1947میں میاں صاحب نے کشمیر کے مسئلہ میں اہم رول ادا کیا تھا۔ سبطے بھائی نے اس کی یوں تفصیل بیان کی کہ اگست 1947 کے آخر میں کشمیر کی مسلم کانفرنس کے صدر سردار ابراہیم لاہور آئے تھے اور انہوں نے پونچھ میں راجہ کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت میں پاکستان کی امداد حاصل کرنے کے لئے میاں صاحب سے ملاقات کی تھی۔ میاں صاحب خود صورتحال کا جائزہ لینے سری نگر گئے تھے۔ واپسی پر میاں صاحب کی مری میں جنرل اکبر خان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میاں صاحب نے ان سے کہا کہ کشمیر کے مسلمان، راجہ اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کے سخت خلاف ہیں، اس لئے ان کی امداد کے لئے منصوبہ تیار کیا جائے۔ اس دوران میاں صاحب دوبارہ سری نگر گئے اور شیخ عبداللہ سے ملاقات کی جو چند روز پہلے جیل سے رہا ہوئے تھے۔ میاں صاحب نے شیخ عبداللہ کو پاکستان آنے پر آمادہ کیا تاکہ پاکستان کے رہنمائوں کی حمایت حاصل کی جاسکے۔ میاں صاحب، شیخ عبداللہ کو اپنے ساتھ لاہور لائے لیکن بد قسمتی سے جناح صاحب نے شیخ عبداللہ سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا اور کشمیر کے بارے میں میاں صاحب کا مشن ناکام ہوگیا۔ میاں صاحب سخت مایوس ہوئے اور اس وقت انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر گنوا دیا ہے۔
میاں صاحب بنیادی طو پر شکی مزاج کے حامل تھے۔ لندن سے جب وہ چلتے تھے تو کراچی سے دومقامات کے لئے ان کی پروازیں بک ہوتی تھی۔ کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ وہ ڈھاکہ جائیں گے یا لاہور۔ کراچی میں میٹروپول ہوٹل میں ان کا سویٹ بک رہتا تھا۔ ایک روزمیں ایرک رحیم اور جعفر نقوی کے ساتھ میاں صاحب سے ملنے میٹرو پول ہوٹل گیا۔ میاں صاحب شام کو کسی سے ملنے جانے والے تھے۔ انہوں نے اپنے پرانے ملازم بابا جی سے کرتے پاجامہ کاصاف جوڑا لانے کے لئے کہا۔ بابا جی فی الفور ایک دھلا ہوا جوڑا لے آئے۔ میاں صاحب نے جوڑا دیکھا اور کہا اوں ہوں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ بابا جی اس کی جگہ ایک اور جوڑا لے آئے، اسے بھی میاں صاحب نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ صاف نہیں ہے۔ اس کے بعد بابا جی ایک اور جوڑا لے آئے۔ میاں صاحب نے بڑے خوش ہو کر کہا ہونڑ ہوئی گل اور یہ جوڑا بدلنے غسل خانہ چلے گئے۔ بابا جی نے مسکراتے ہوئے ہم سب کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ وہی جوڑا ہے جو میں سب سے پہلے لایا تھا۔
ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ میاں صاحب کے شکی مزاج کی اصل وجہ کیا ہے۔ بابا جی نے بڑی رازداری کے اندازمیں انکشاف کیا کہ دراصل بچپن میں جائیداد کے تنازعہ پر کچھ لوگوں نے انہیں زہر دینے کی کوشش کی تھی جس میں وہ ناکام رہے۔ بس اس روز سے میاں صاحب کے مزاج میں شک حاوی ہوگیا۔
مسلم لیگ کی قیادت خاص طور پر پنجاب کے زمیندار مسلم لیگی رہنما، میاں صاحب کی زرعی اصلاحات اور اراضی کی ملکیت محدود کر کے اراضی بے زمین کاشتکاروں میں تقسیم کی تجویز کے سخت خلاف تھے۔ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت، میاں صاحب کی طرف سے قرارداد مقاصد کی مخالفت پر ناراض تھی۔ میاں صاحب کا اعتراض تھا کہ یہ عجیب منطق ہے کہ ملک کے قیام کے بعد اس کے مقاصد منظور کیے جا رہے ہیں۔ میاں صاحب کی رائے تھی کہ
پاکستان اسی صورت میں ترقی کر سکتا ہے جب یہاں ایک روشن فکر سیکولر معاشرہ قائم ہو، ملک کی خارجہ پالیسی آزاد ہو اور معیشت کا نظام سوشلزم کی بنیاد پر قائم کیا جائے۔ میاں صاحب مسلم لیگ کی قیادت سے اس قدر مایوس ہوئے کہ انہوں نے 1949 میں مسلم لیگ سے استعفی دے دیا اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے جھنجھلا کر میاں صاحب کو 1951 میں مسلم لیگ سے خارج کردیا۔ جس کے بعد میاں صاحب نے آزاد پاکستان پارٹی کے نام سے ایک ترقی پسند پارٹی منظم کی۔ اس وقت ان کے ساتھ شوکت حیات خان، بادشاہ خان، ڈاکٹر خان صاحب، محمود علی قصوری، کراچی سے ممتاز قانون دان نور العارفین اور فخر الدین جی ابراہیم بھی ساتھ تھے۔
شہروں میں تعلیم یافتہ طبقہ تو آزاد پاکستان پارٹی کا حامی تھا لیکن ملک کے دیہی علاقوں میں زمینداروں، وڈیروں اور سرداروں کی اقتصادی اور معاشرتی قوت کا نئی پارٹی مقابلہ نہ کر سکی حالانکہ اسے سندھ میں ہاری اور پنجاب میں کسان تحریک کی حمایت حاصل تھی۔ پھر پہلے فوجی طالع آزما ایوب خان نے پاکستان ٹائمز اور امروز پر شب خون مار کر پارٹی کو بڑی حد تک اپاہج کر دیا تھا اور میاں صاحب اس سایہ دار درخت سے محروم ہو گئے تھے جس کو انہوں نے دانشوروں اور صحافیوں کی ایک کہکشاں کی مدد سے سینچا تھا اور جو روشن خیال پاکستان کے لئے مشعل راہ تھا۔
میں مارچ 1960 کی وہ شام نہیں بھول سکتا۔ دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر کی کوٹھی گلِ رعنا میں ایوب خان کی حکومت کے وزیرِ داخلہ جنرل کے ایم شیخ کے اعزاز میں، جو دلی کے دورہ پر آئے تھے، استقبالیہ تھا۔ پنڈت نہرو بھی اس استقبالیہ میں مدعو تھے۔ میں نے دیکھا نہرو بیگم شیخ کا ہاتھ تھامے جناح صاحب کی ایک بڑی تصویر کے نیچے کھڑے تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر رک گیا اور بڑے غور سے نہرو کو دیکھنے لگا۔ انہوں نے جب مجھے یوں گھورتے دیکھا تو مجھے اشارہ سے بلایا۔ کہنے لگے صاحب زادے اس سے پہلے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ میں نے کہا ضرور 1946 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی گولڈن جوبلی کے اجلاس میں جہاں میں اسٹیج پر بوائے اسکاوٹ کی حیثیت سے تعینات تھا۔ آپ نے اجلاس کے اختتام پر آصف علی کو آواز دی تھی جس پر میں آپ کے سامنے حاضر ہوا تھا۔ آپ سمجھ گئے تھے کہ میرا نام بھی آصف ہے۔ اور آپ نے ہلکا سا چپت بھی رسید کیا تھا۔
بیگم شیخ کا ہاتھ چھوڑے بغیر نہرو نے مجھ سے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے جب بتایا کہ میں پاکستانی صحافی ہوں اور دلی میں تعینات ہوں تو پنڈت نہرو نے بیگم شیخ کا ہاتھ چھوڑ کر پوچھا کہ ارے میرے پرانے جگری اور بہت پیارے دوست میاں افتخار الدین کا کیا حال ہے؟
میں نے کہا کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اور زیادہ تر لاہور میں وقت گذارتے ہیں۔ نہرو نے بڑی لمبی آہ بھری، ایسا لگا کہ یہ آہ تین طویل دہائیوں کی یادوں کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے۔ کہنے لگے افتی کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔ پیارا افتی بہت یاد آتا ہے۔
جون کے یہی دن تھے جب 1962 کو یہ خبر آئی کہ میاں افتخار الدین، 54 برس کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے اپنی بیگم اور دو بیٹوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں چاہنے والے ہم خیالوں کو سوگوار چھوڑ کر اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔
اس موقع پر فیض صاحب نے کہاتھا۔
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا۔
اور ہم نے اپنی قومی روایات کے مطابق انقلابی جاگیردار کو بھلا دیا۔
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کوگماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا۔