تحریر: عاصمہ عزیز، راولپنڈی
میرا نام پاکستان ہے۔ مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی کہتے ہیں۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اسلام اور جمہوریت یہاں مکمل طور پر را ئج ہیں لیکن بدقسمتی سے اسلامی ملک ہونے کے باوجود اسلام یہاں مکمل طور پر رائج نہیں ہوسکا۔ اس کی وجہ لوگوں کے مشرق میں رہتے ہوئے مغرب کی تقلید ہے۔ لیکن آج سے 65 سال پہلے جن عظیم لوگوں نے مجھے حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی تھیں وہ صرف اسلام کے قیام کے لیے ہی تھیں۔ 1947ءمیں میرے قیام کے بعد قائد اعظم کی قیادت اور علا مہ اقبا ل کے اندا زِ فکر نے مسلمانوں کو یقینا ایک مقام پر پہنچایا تھا اور پوری قوم کے سامنے واحد مقصد پیش کیا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں میں وحدت ِخیال ختم ہوتا گیا اور لوگ متحد قوم سے بکھیری ہوئی قوم میں تبدیل ہوگئے اور نتےجہ آج آپ کے سامنے ہے۔
آج کے دور میں جن ایلیٹ کلاس کے لوگوں نے میری بھاگ دوڑ سنبھا ل رکھی ہے وہ مجھے ترقی دینے سے زیادہ اپنے بینک بیلنس کو ترقی دینے کی فکر میں گھل ہے ہیں۔ ان کے نزدیک جائز اور نا جائز کی تفر یق کوئی معانی نہیں رکھتی۔ کرپشن چاہے وہ کسی قسم کی ہو ان بیور و کریٹس اور جاگیرداروں کے وجود کا حصہ بن چکی ہے اور ان لوگوں کے دیکھا دیکھی عام لوگوں نے بھی اس ”عظیم“ کام میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ آج ہر کوئی ” بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو“ کی مثال ہے۔ ان عظیم لوگوں کے ہوتے ہوئے میرا کیا حال ہوسکتا ہے آپ خو د اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آج مجھ میں بے شمار زخائر موجود ہیں اور میں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہوں لیکن اس کے باوجود یہاں رہنے والی 73 فیصد آبادی آدھا دن بجلی اور گیس سے محروم رہتی ہے۔
میرے ہر شہر میں رہنے والا آج کا انسان مجھے چھوڑ کے بھاگ جانا چاہتا ہے۔ یہاں رہنے والا ہر انسان میری اس حالت کا ذمہ دار آنے والے ہر دوسرے حکمران کو ٹھہراتا ہے۔ یقینا خود کو بوجھ سے آزاد کرنے کا یہ بہت آسان طریقہ ہے کہ دوسروں پر سارا بوجھ ڈال دیا جائے۔ آپ نے وہ مشہور با ت تو سنی ہوگی کہ جیسی قوم ہوتی ہے ویسے ہی اس پر حکمران مسلط کیے جاتے ہیں۔ قوم نے آج اپنے اعمال وافعال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایسی ہی قیادت کے لائق ہیں۔
آج اگر مجھ پر حکمرانی کرنے والے ہر لیڈر کو یہاں کے رہنے والے لوگ کرپٹ، مفاد پرست اور مادہ پرست کہتے ہیں تو کیا یہاں کے عوام میں یہ بیماریاں نہیں پائی جاتیں؟ یقینا پائی جاتی ہیں۔ تو پھر لوگ میری اس حالت کا ذمہ دار صرف اور صرف حکمرانوں کو کیسے اور کیونکر ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی اﷲ کے احکامات اور اس کی دی ہوئی کتاب سے منہ موڑا وہ قوم زوال کی تاریکیوں میں ڈوبتی چلی گئی۔
آج اگر میں (پاکستان) زوال کی طرف گامزن ہوں تو اس کی وجہ بھی یہاں کے رہنے والوں کی کتاب اللہ یعنی قرآن سے دوری کا سبب ہے۔ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قوموں کے اندر کا اخلاقی بگاڑ ہے جو انھیں نیچے گراتا ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کے آئینے میں ہم خود کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آج کا مسلمان مجھے (پاکستان) ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ آپس کی لڑائی سے گریز کرے۔ اپنی انا اور ذات کے علاوہ دوسروں کی ذات اور ان سے بھلائی کو ترجیح دی جائے۔ خود پسندی، خود کو بڑا منوانا، خود کو بڑا سمجھ کر خوش ہونا اور ہر اس بات سے خوش ہونا جس میں خود کی بڑائی ہو یہ ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں، ان کاموں سے بچتے رہنا۔ یاد رکھنا کہ جب اختلافِ رائے برداشت نہیں ہوتا تو برداشت بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ اعلیٰ انسانی کردار اور اصول ختم ہو کے رہ جاتے ہیں۔ انسان خواہشات کے پیچھے چل پڑتا اور جب انسان خواہشات کے پیچھے چل پڑتا تو اپنے اس واحد مقصد کو بھول جاتا ہے جیسا میرے شہر یوں کے سا تھ ہو رہا ہے۔ مجھے اپنی حالت دیکھ کر اکثر یہ شعر یاد آتا ہے۔
ابھی تک پاﺅں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا، آزادی نہیں آتی
دعاﺅں میں یاد رکھیے گا!
آپکا اپنا پاکستان
تحریر: عاصمہ عزیز، راولپنڈی