برمنگھم (ایس ایم عرفان طاہر سے) ون وائس موومنٹ یورپ، آکسفورڈ فائونڈیشن برطانیہ اور انسٹی ٹیوٹ فار لیڈر شپ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے اشتراک سے فلسطین اور اسرائیل کے مابین پر امن مذاکرات کے حوالہ سے دونوں اطراف کی عوام میں شعور و آگہی کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سیمینار کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ فارلیڈر شپ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ بر طانیہ میں انعقاد پذیر ہوا۔
جس کی صدارت معروف برطانوی سکا لر و ڈا ئر یکٹر انسٹی ٹیو ٹ فا ر لیڈر شپ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ڈا کٹر اقتدار کرامت چیمہ نے کی جبکہ معزز مہمانان گرامی ون وائس فلسطین کے نمائندہ وسیم المصری ، ون وائس اسرائیل کی نمائندہ تانیہ فیراج ،ون وائس برطانیہ کی نما ئندہ مس جیس ، کلیم حسین دی آکسفورڈ فا ئونڈیشن برطانیہ کے علاوہ کرنل رچرڈ میبئرے QGM ڈپٹی کمانڈر برٹش آرمی ویسٹ مڈلینڈز ، پیر سید لخت حسنین چیئرمین مسلم ہینڈز برطانیہ ، ڈاکٹر تھو مس پی ایچ ڈی ڈیپا رٹمنٹ یونیورسٹی آف برمنگھم ، زاہد چو ہدری چیئرمین برٹش پاکستانی پروفیشنل کونسل برطانیہ ، سمیرا فرخ چیف ایگزیکٹو نو ر ٹی وی برطانیہ ، انیلہ اسد وائس چیئر پرسن بنا ت المسلمین برطانیہ ، ماریہ نوید ، جیرالڈ نیمبرڈ ، عطا ء اللہ فتظگبن، فرانسزواڈمز ، کلیئر تھامس ، جوزف قاہل ، رون سکیلٹن ، نبیلہ اوکینو، انو یوسف ، الیکسیا موکوطوس ،پا ئو لینا سزکلا رس ، سارا رکٹس ، منیبہ خالد ، سید منصور حسین شاہ اور دیگر نے خصوصی شرکت کی۔
اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ خاصا حساس اور اہمیت کا حامل ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ دونوں اطراف کی عوام الناس کو اس مسئلہ سے آگا ہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ یہ حقیقت کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا ہے کہ اس مسئلہ کی بدولت دونوں اطراف کی عوام کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس تصادم کی بدولت وہ مسلسل پریشانی میں مبتلا ء ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ جو لوگ فلسطینی اور اسرائیلی عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں یا اس مسئلہ کو حل کی طرف لیجا نے کے لیے سنجیدگی سے سوچ بچار کررہے ہیں ان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ آنے والے عام انتخابات میں ایسی جما عت اور سیاستدانوں کو کامیاب بنائیں جو اس مسئلہ کو حل کی طرف لیجانے کا عزم رکھتے ہیں جو ذاتی مفادات یا عزائم کی خا طر اسے مزید پیچیدگی میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
انہو ں نے کہاکہ پو ری دنیا کو اس بات کو تسلیم کرلینا چا ہیے کہ یہ ایک مذہبی نہیں بلکہ نظریاتی اور سیاسی مسئلہ ہے جومشرق وسطہ میں جغرافیائی اور علا قائی اختلاف کی بدولت پیدا ہو ا ہے جس کی آڑ میں یہو دیوں اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ابھا رنے کی کوشش کی جا تی ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ یہ مسلمانوں اور یہودیوں کی مذہبی جنگ نہیں ہے بلکہ علاقائی تنا زعہ ہے اسے گراس روٹ لیول پر سیاسی اور فوجی مداخلت کے بغیر قابل عمل بنایا جا سکتا ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ بیرونی طاقتیں اس مسئلہ کو جواز بنا کر نفرت اور قدورت کو فروغ دے رہی ہیں جس کی بدولت دونوں اطراف کا امن خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔
انہو ں نے کہاکہ اس جنگ کی بدولت دونوں اطراف کی عوام جہد مسلسل میں مبتلاء ہے اور انہیں مسائل کا سامنا ہے جب تک دونوں اطراف کے وہ لوگ جو اس مسئلہ کی نوعیت سے آگاہ نہیں ہیں ان کو اس سے روشناس نہیں کروایا جا ئے گا تو یہ مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا ۔ انہو ں نے مزید کہاکہ عوام ہی وہ حتمی قوت اور طا قت کا سرچشمہ ہیں جو حکومتوں اور افواج سے اپنے حقوق کو بحال کروانے میں قلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
انہو ں نے کہاکہ دونوں اطراف میں بسنے والے باشعور اور مہذب افراد اس مسئلہ کو جلد از جلد منزل تک پہنچتا ہو ا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ عام عوام اگر اس مسئلہ کے حل با رے عملی اقدامات پہلے سے اٹھا لیتی تو شاید اتنی بڑی تباہی و بربادی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔