اسرائیل میں ایک ضلعی عدالت نے ایک یہودی انتہا پسند کو 2015 ء کے ایک آتش گیر حملے میں ایک فلسطینی بچے اور اس کے والدین کے قتل کا مجرم قرار دیا ہے۔
اس واقعے سے فلسطینیوں میں گہرے صدمے کی لہر دوڑ گئی تھی اور یہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعے میں جلتی پر تیل کے مترادف ثابت ہوا تھا اور مشرق وسطیٰ میں کئی مہینوں تک تشدد کی آگ بھڑکتی رہی تھی۔
پیر کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جولائی 2015 ء کی ایک شب یہودی آبادکار امیرم بن الیل نے مغربی اُردن میں ایک فلسطینی فیملی کے گھر پر اُس وقت آتشیں بم پھینکا تھا جب فیملی کے تمام لوگ سو رہے تھے۔ اس حملے کے نتیجے میں 18 ماہ کا علی دواب شہ وقوعہ پہ ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ اُس کی ماں ریحام اور اُس کا والد سعد بعد میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چک بسے۔ تاہم علی کا ایک چار سالہ بھائی احمد اس دہشت گرد حملے میں بچ گیا تھا۔
عدالتی فیصلے پر رد عمل
مرکزی اسرائیل میں واقع اس ضلعی عدالت کے کمرے کے باہر کھڑے ننھے علی دواب شہ کے دادا کا کہنا تھا،” یہ مقدمہ میرے اہل خانہ کو واپس نہیں لا سکے گا۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور خاندان اُس اذیت اور صدمے سے گزرے جس سے میں گزرا ہوں۔‘‘
اسرائیلی پراسیکیوٹر ژایئل آٹتسمون نے اسے “نسل پرست مقاصد کے لیے کیا جانے والا حملہ قرار دیا۔” ان کے بقول،”عدالت نے اسے ایک دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے اور یہ فیصلہ ایک سخت پیغام بھی ہے۔ دہشت گردی دہشت گردی ہے اس میں مجرم کی شناخت کوئی معنے نہیں رکھتی۔‘‘دریں اثناء یہودی آبادکار بن الیل کے وکلاء نے دعوی کیا کہ ان کے مؤکل کو تشدد کا نشانہ بناکر اس سے اعتراف جرم کروایا گیا۔ وکلاء نے اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا لیکن کہا کہ انہیں عدالتی فیصلے پر حیرت نہیں ہوئی اور وہ اس کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ مجرم کو سزا کب ہو گی لیکن ایک وکیل یٹزگ باؤم نے کہا،”ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ فیصلے کو کالعدم کردے گی۔‘‘
ناقدین کیا کہتے ہیں؟
اسرائیل میں سیاسی سطح پر اس حملے کی مذمت کی گئی تھی اور وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس قسم کے واقعات کو ناقابل برداشت قرار دیا تھا اور حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ تفتیش کاروں نے متعدد مشتبہ افراد کو”انتظامی حراست‘‘ میں رکھا۔ یہ اقدام عام طور پر مبینہ فلسطینی عسکریت پسندوں کے لیے مخصوص ہے جو حکام کو اجازت دیتا ہے کہ وہ مشتبہ افراد کو بغیر کسی الزام کے مہینوں تک حراست میں رکھیں۔تاہم ناقدین نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہودی انتہا پسند کی طرف سے کیے گئے حملے کے مقابلے میں کم غیر مہلک حملے، جیسے کے مساجد اور گرجا گھروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے جانے والے حملوں کو کئی کئی سال بغیر کسی سزا کے نظر انداز کیا جاتا رہا اور جب ڈوما حملے کی تفتیش کو گھسیٹا گیا تو فلسطینیوں نے دوہرے معیار کی شکایت کی۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں فوجی قوانین کے تحت عسکریت پسندی کے شبے میں جلد گرفتار کرلیا جاتا ہےاوران کے خلاف بہت جلد قانونی کارروائی کی جاتی ہے جبکہ یہودی اسرائیلیوں کو ملک کے فوجداری قوانین سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔
بن الیل کا تعلق اس تحریک سے ہے جو ” ہل ٹاپ یوتھ ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ بغیر کسی قیادت کے کام کرنے والا نوجوانوں کا ایک گروپ ہے جو عام طور پر مغربی کنارے کی پہاڑیوں کی چوٹی پر غیر قانونی چوکیاں بنا کر بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جس سے فلسطینیوں کی آس و امید قائم ہے اور وہ اس جگہ اپنے لیے ایک خود مختیار ریاست کے دعویدار ہیں۔