آج سے کوئی 35 سال پہلے کی بات ہے کہ ہم نے اپنے علمی استعداد بڑھانے کے لئے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں داخلہ لیا، ہمارے اس وقت کے ایک استاد قادری صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ تاخیر انصاف انصاف کی تردید کی ہے اور پھر ہم پو چھتے کہ سر ! اگر ایسا ہی ہے تو ہماری عدالتیں تو اکثر انصاف دلانے میں دیر ہی کیا کرتی ہیں تو کیا وہ انصاف نہیں کر پا رہی ہیں۔ تو وہ جواب دیتے” انصاف کی تاخیر میں ججوں کا نہیں ، وکلاء کا قصور ہو تا ہے۔
‘آج تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ واقعی انصاف دلانے میں تاخیر کی ذمّہ داری وکلاء حضرات کے کندھوں پر عائد ہو تی ہے۔ لیکن اب ہمارا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا ہے اور اس تبدیلی کی وجہ مشہور عدالتی کیس پانامہ کیس ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ نے جس تیزی اور تندہی کے ساتھ اس کیس کی پیروی کی ، وہ یقینا قابلِ ستائش ہے ،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھو سہ کی سربراہی میں پانچ معزز جج صاحبان نے روزانہ کیبنیاد پر اس مقدمہ کو سنا اور فریقین کی طرف سے پیش کردہ دلائل پر غور و خوض کرنے کے بعد 23فروری سپریم کورٹ کی طرف سے اس کیس کے فیصلہ کو محفوظ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مقدمے کی اہمیت کے پیشِ نظر، حسبِ روایت مختصر فیصلہ سنانے سے بھی گریز کیا گیااور عوام کو تفصیلی فیصلہ فیصلہ آنے تک انتظار کرنے کو کہا گیا۔
تا دمِ تحریر پانامہ کیس کے فیصلہ کو محفوظ ہوئے تقریبا پچاس دن ہو چکے ہیں مگر محفوظ شدہ فیصلہ منظرِ عام پر نہیں آیا ۔جس کا عوام کو شدّت سے انتظار ہے۔ فیصلہ کیوں نہیں سنایا جا رہا ہے ؟ اس کے پسِ پردہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے ؟ عوام اس سے قطعی بے خبر ہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ ان کے دلوں میں وسوسے ، اندیشے اور مایوسیاں جنم لے رہی ہیں۔
اپنے سیاسی قیادت کے بارے میں پاکستانی عوام پہلے سے ہی کو ئی اچھی را ئے نہیں رکھتے مگر اپنے اعلیٰ عدالتوں پر انہیں مکمل اعتماد ضرور تھا ، اب پانامہ کا فیصلہ اتنا طول پکڑ گیا کہ اپنے اعلیٰ عدالتوں کے کارکردگی پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ اگر فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے ، قانون کے تمام تقاضے پورے ہو چکے ہیں تو پھر فیصلہ سنانے میں اتنی تا خیر کیوں ہو رہی ہے ؟ یوں بھی ہمارے عدالتی نظام سے عوام خوش نہیں، انہیںہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہے کہ عدالتی فیصلہ آنے میں عمو ما بہت زیادہ تاخیر کی جاتی ہے۔
ملزمان بیس سال سترہ سال اور بارہ بارہ سال تک پابند سلاسل رہنے کے بعد بے گناہ ثابت ہو کر رہا کر دئیے جاتے ہیں۔ اتنے طویل
مدّت تک بغیر کسی جرم کے عقوبت خانے میں رہنا ہمارے عدالتی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ مگر پانامہ گیٹ سکینڈل کا مقدمہ کی اہمیّت کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے ، فیصلہ سنانے میں اتنی تاخیر یقینا عوام کی ذہنوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو تا جا رہا ہے، انہیں مختلف ذرائع سے ہر ہفتے یہ نوید سنائی جاتی ہے کہ اگلے ہفتہ پانامہ کیس کا فیصلہ آئے گا ، مگر اگلا ہفتہ گزر جاتا ہے۔فیصلہ سامنے نہیں آتا۔ فیصلہ جو بھی ہو ، خواہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے حق میں ہو ، یا اس کے خلاف ہو ، جو بھی ہو، اب سامنے آجانا چاہیئے۔ اب اس میں مزید تاخیر اعلیٰ عدالتوں کے بارے میں عوام کے ذہنوں میںشکوک و شبہات جنم لے رہی ہیں۔
لہذا مناسب ہو گا کہ اب پانامہ کیس کو طشت ازبام کرنے میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اور جتنا جلدی ممکن ہو سکے، فیصلہ عوام کے سامنے لایا جائے۔تاکہ چہ مگوئیاں ختم ہوں، وسوسے اور اعلیٰ عدالتوں سے متعلق جنم لینے والے بد گمانیاں اپنی موت آپ مر جائیں۔ اور انہیں یہ بھی یقینِ محکم ہو جائے کہ ہماری عدالتیں مبنی بر انصاف، آزادانہ فیصلے کرنے میں کسی مصلحت یا دبائو کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ انصاف ہو گا تو پاکستان بھی قائم و دائم رہے گا۔