جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آج میڈیا کا سب سے بڑا موضوع پاناما اور جے آئی ٹی ہے۔ پانامہ کیس کی ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ کرپشن کا خاتمہ ہے، نواز شریف کو سزا دینا ہے یا پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ۔ہمیں پاکستان کو عدم استحکام سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پشاور میں ایک تقریب سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پانامہ کیس کا معاملہ کسی کا اقتدار میں آنے اور پیسہ کمانے کا مسئلہ ہوگا، ہمارا یہ مسئلہ نہیں۔ہم نے اپنے نوجوانوں کے جذبات پر کنٹرول کرنے کی جدوجہد کی ہے۔ہم نے الزامات برداشت کئے، طعنے سہے، مگر صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے حوالے سے پاکستان کا روشن مستقبل بھارت کو قبول نہیں۔ عالمی اقتصادیات پر چین کا قبضہ کرنا امریکہ کے لئے قابل قبول نہیں۔اب داعش کی صورت میں افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش ہورہی ہے۔عالمی طاقتیں پاکستان کو بھی عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک ہوگئے ہیں۔ نواز شریف کا اقتدار میں ہونا یا نہ ہونا ہمارا مسئلہ نہیں۔ ہمیں قومی مفادات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ ہمیں حقائق کے ساتھ چلنا ہے، اگر ہمارا نقطہ نظر غلط ہے تو ہمیں قائل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمانی نظام کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنے اسلاف کے نظریات کی تشریح کے مشن پر کاربند ہیں۔موجودہ دور اسلام کے بقاء کی جنگ کا دور ہے۔ملکوں اور میڈیا کی سیاست خالصتا معروضی ہے۔ کسی ایک ایشو پر پوری قوم کو یرغمال بنایا جاتا ہے۔اس نوعیت کی سیاست سے جے یو آئی جوڑ نہیں کھاتی۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اسلامی نظریئے کی محافظ ہے۔ ایک مذہبی اجتماع میں پچاس لاکھ افراد کی شرکت نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے مزید کہاکہ اسلامی دنیا میں اضطراب اور عدم استحکام پیدا کرنا عالمی ایجنڈا ہے۔ آج لیبا، شام، یمن، عراق ، افغانستان وغیرہ میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ افغانستان میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی کا مقصد پاکستان اور وسطی ایشیاء میں عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔امریکہ کو توقع نہیں تھی کہ ایشیا چین کی قیادت میں سرمایہ داروں کے سامنے کھڑا ہوگا۔