جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیورو اور مرکزی آفس برلنMCB یورپ کے مطابق پانامہ کے جزیرے سے نکل کر
پوری دنیا میںتہلکہ منانے والی رپورٹ،جسے پانامہ لیکس کا نام دیا گیا، کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی میڈیا میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی اولاد کے خلاف الزامات اور انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔جس کے جواب میں شریف فیملی ،حکومتی وزرا اور مشیروں کے وضاحتی بیان اخبارات اور ٹاک شوز کی زینت بن رہے ہیں۔
حسب معمول انکے بعض ساتھی” شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار” کے مقولہ پر عمل کرتے ہوئے الٹے سیدھے بیانات بھی داغ رہے ہیں۔ مثلاً پانامہ لیکس کو ”پاجامہ لیکس” کہہ کر مذاق ارانے والوں نے نادانستگی میں ایک ایسی اصطلاح استعمال کر دی ہے،جو مستقبل میں خود انکے گلے میں گھنٹی بن کر لٹکنے والی ہے۔کیونکہ اس لیکس رپورٹ نے بڑوں بڑوں کے پاجامے اتار دئے ہیں۔البتہ یہ بات درست ہے کہ ان لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا،جو پہلے ہی سے” اس حمام میں سب ۔۔۔۔۔” کے مصداق شرم و حیا سے عاری ہو چکے ہیں۔ان ڈھیٹ اور بے شرم لوگوںکے آخری انجام تک انکی ہدایت کے لئے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
اس واقعہ پر پاکستان عوامی تحریک کے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے میاں نواز شریف کے استعفے اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کے علاوہ سانحہ ء ماڈل ٹائون کے ذمہ داران کو سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے جرمنی کے دارالحکومت برلن میں مقیم پاکستان عوامی تحریک یورپ کے چیف کوآرڈینیٹر،اپنا انٹرنیشنل کے چیف ایگزیکٹئو،ایشین جرمن رفاہی سوسائٹی کے چیرمین ،نامور ایشین یورپین صحافی و شاعر،محمد شکیل چغتائی نے اخباری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ”پاکستان پر حکومت کرنے والے چند خاندانوں کی خفیہ دولت، جائیداد اور اثاثوں کے بارے میں٩٠ کی دہائی سے سوالات والزامات کا سلسلہ جاری ہے۔تاہم ان معاملات کو زیر بحث لانے کے بجائے ہمیشہ انکو دبا دیا گیا۔
پہلی مرتبہ پانامہ لیکس کی وجہ سے ان باتوں پرسنجیدگی سے غور شروع ہوا۔ گو اس مرتبہ بھی حکمران جماعت کےنمائندوں،انکے کاسہ لیسوں اور وظیفہ خواروں نے اس بات کو ہوا میں اڑانے کی ناکام کوشش کی،مگر یہ سوال زور وشور سے کیا جارہا ہے کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا،کیسے باہر گیا اور کس کی ملکیت تھا؟اگر یہ جائز پیسہ ہے تو اسے چھپانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ان اثاثوں کی ملکیت ١٩٩٤ء کے بجائے٢٠١٦ء میںظاہر کرنے کی مجبوری کیا تھی؟ان تمام سوالات کے جواب تلاش کرنے کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی یا انکے نامزد شدہ جج اور دیگرموجودہ ججزپر مشتمل ایک با اختیار جوڈیشنل کمیشن کاقیام انتہائی ضروری ہے۔بلکہ اس معاملے میں جرم تلاش کرنے کی خاطرجی آئی ٹی طرز کی کوئی تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی جا سکتی ہے،تاکہ وزیر اعظم نواز شریف کے دامن تک پہنچنے والے چھینٹے صاف ہو سکیں۔”
چیرمینPATعلامہ طاہر القادری اور چیف کوآرڈینیٹرُPATیورپ محمد شکیل چغتائی کے بیانات کی حمایت کرتے ہوئےPATجرمنی کے سینئرنائب صدرکضر حیات تارڑ نے کہا کہ”پانامہ لیکس کی اشاعت کے بعدوزیر اعظم پاکستان کوآئس لینڈ کے وزیر اعظم کی طرح فوری طور پر مستعفیٰ ہو جانا چاہئے تھا،مگر وہ ایک تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کرکے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں ،جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔لہٰذا میرا میاں محمد نواز شریف سے پرزور مطالبہ ہے کہ وہ اپنے عہدہ سے استعفےٰ دیں اور اس معاملہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کو یقینی بنائیں۔”