وزیراعظم نواز شریف کے وکیل سے پارلیمنٹ میں تقریر پر سوالات کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی، بعد میں کہااگر غلط بیانی کی بھی تو اس کو استثنیٰ حاصل ہے ، کیا اس استثنیٰ کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
مخدوم علی خان بولے ’’پارلیمنٹ ہی استثنیٰ کوختم کرسکتی ہے، عدالت کو تعین کرنا ہوگا دو افراد میں کون سچا ہے۔‘‘پاناما لیکس کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے وکیل سے پارلیمنٹ میں تقریر پر سوالات میں جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی، بعد میں کہا اگر غلط بیانی کی بھی تو اس کو استثنیٰ حاصل ہے ۔جسٹس عظمت سعیدنے سوال کیا کہ کیا اس استثنیٰ کو ختم کیا جاسکتا ہے؟سپریم کورٹ میں پاناما پیپرز لیکس کیس میں وزیر اعظم کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا سنائی گئی،نا اہلی سے متعلق تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا، دوہری شہریت کے فیصلےکی بنیاد پر تقاریر پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دوہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا، آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ مخدوم صاحب۔کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی تشریح کیس کی بنیاد پر ہوئی، ممکن ہے اس حوالے سے آئندہ مزید فیصلے آئیں۔سپریم کورٹ کےسینئر جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی پاناما پیپرز لیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنےدلائل میں کہا کہ نا اہلی سے متعلق تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دوہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا، آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟مخدوم علی خان نے کہا کہ دوہری شہریت کے حوالے سے آرٹیکل تریسٹھ ون سی واضح ہے۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دوہری شہریت کیس کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے کہ عدالت دائرہ اختیاررکھتی ہے، کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ریکارڈ سے کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے ہر کیس کا حقائق کے مطابق جائزہ لیا تھا، دوہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیا گیا، دوہری شہریت کے فیصلےکی بنیاد پر تقاریر پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔
یوسف رضا گیلانی ناہلی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مخدوم علی خان نے کہاکہ26 اپریل 2012 کو سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سزا سنائی، اس سے پہلےیکم اپریل کو عدالت نے وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا، 4مئ کو اسپیکر نے رولنگ دی تو معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں آیا۔19جون کو عدالت نے یوسف رضا گیلانی کووزیر اعظم کے عہدےسے ہٹانے کا حکم دیا۔مخدوم علی خان نے مبشر حسن کیس سمیت متعدد عدالتی فیصلوں کے حوالے بھی پیش کیے۔جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ مخدوم صاحب آپ کو مزید کتنا وقت لگے گا؟مخدوم علی خان نے کہا کہ تقاریر میں تضاد، زیر کفالت اور پھر دائرہ اختیار کے حوالے سے بات کروں گا،میری کوشش ہوگی آج 62 ،63 کے حوالے سے دلائل مکمل کروں، وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے دلائل دہراؤں گا نہیں۔وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران عمران خان اور شاہ محمود قریشی جمائیاں لیتے رہے، نعیم بخاری ایڈووکیٹ پر بھی نیند کا غلبہ طاری رہا اور وہ مسلسل اونگھتے رہے۔