ساری دنیا میں جگ ہنسائی ہے
بات لیکن زباں پہ آئی ہے
پوچھتا ہوں میں یہ حکومت سے
کیا یہ نمرود کی خدائی ہے
کچھ تو ہوں گے گناہ کے قصے
ورنہ کس بات کی صفائی ہے
کچھ تو گھپلے کئے ہیں تم نے بھی
ڈو ر کس نے بھلا پھنسائی ہے
بے گناہی کا ہے یقین تمہیں
یہ کسی نے فقط اڑائی ہے
تم ملوث نہیں ہو چوری میں
نہ ہی چوری کی یہ کمائی ہے
یہ تمہارے خلاف سازش ہے
کہہ کے یہ جان پھر چھڑائی ہے
تم ہو معصوم کس کو دیں الزام
آگ یہ کس نے پھر لگائی ہے
آج بھی بے قصور ہے یوسف
یہ زلیخا کی بس دہائی ہے
تم نہ یوسف نہ وہ زلیخا ہے
جس نے تہمت نئی لگائی ہے
تم ہو سیدھے جلیبی کی مانند
اور تیار اک کڑھائی ہے
دے دو قربانی قوم کی خاطر
یہ تمہارے لئے بھلائی ہے
جانے کیوں سرپھرا ہوا انجم
جانے کیا سر میں پھر سمائی ہے
تحریر : پرنس انجم بلوچستانی