تحریر : راشد علی راشد اعوان
آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پانامہ کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہو گئے ہیں،موجودہ دور میں بلکہ موجودہ صدی میں پانامہ لیکس کو خفیہ دستاویزات کا اب تک کا سب سے بڑا انکشاف کہا جا رہا ہے، پانامہ کی ایک لا فرم ہے جو امیر لوگوں کے لیے ایسی کمپنیاں بناتی ہیں جہاں وہ اپنا پیسہ چھپا سکیں،1977 سے قائم پانامہ بیس اس کمپنی نے دنیا بھرمیں اپنا بزنس پھیلا رکھا ہے جو سالانہ فیس لے کر لوگوں کے مالی معاملات کی بھی دیکھ بھال کرتی ہے،اس کی ویب سائٹ پر بیالیس ممالک میں چھ سو لوگ کام کرتے ہیں،موزیک فانسیکا کے ٹیکس کے پناہ گاہ سمجھے جانے والے ممالک سوئٹرز لینڈ، قبرص، برطانوی جزیروں جیسے مقامات پر کام کرتی ہے، یہ دنیا کی چوتھی بڑی آف شورز سروسز فراہم کرنے والی فرم ہے جو تین لاکھ کمپنیوں کیساتھ جڑی ہے۔
سب سے مضبوط رابطہ برطانیہ ہے جہاں اس فرم کی نصف کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں ،آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پانامہ کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے ہیں، ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیراعظم اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے،پانامہ لیکس کی جانب سے ہونے والی انکشافات اور ان انکشافات کی وجوہات جاننے سے قبل دنیا کی چند اہم شخصیات کے مئوقف کو سامنے رکھنے سے قبل ایک زمانہ میں حالات میں بھونچال برپا کرنے اور خفیہ راز افشاء کرنے کے لیے ایک ویب سائٹ ہے جسے جولین اسانش اور اس کے احباب چلاتے ہیں۔
امریکی فوجی کاروائیوں کے متعلق راز افشاء کرنے پر اس موقع نے عالمگیر شہرت حاصل کی،مارچ 2010 کے وسط میں ویکی لیکس کے ڈائریکٹر فولین آسنج نے امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی منشا سے ایک دستاویز جاری کی تھی جس کے بعد وکی لیکس کو ‘امریکی فوج کے لیے خطرہ’ قرار دیا گیا تھا، ویکی لیکس پر فوج کی غیر قانونی اشاعت اور وزارت دفاع کی حساس معلومات جاری کرنے سے غیر ملکی خفیہ سروسز کو ایسی معلومات تک رسائی ملتی ہے جو ان کو استعمال کرتے ہوئے امریکی فوج اور وزارت دفاع کے مفادات کو نقصان پہنچا چکی ہیں۔
وکی لیکس کے انکشافات کے بعد دنیا یہ تسلیم کر چکی کہ اب کسی بھی ملک یا شخصیت کو زیر کرنے کیلئے ہتھیاروں کی قطعاً ضرورت نہیں،امریکہ نے خود عراق پر جنگ مسلط کی اور اس کے بعد اسے افگانستان سے بھی وہی انجام بھگتنا پڑا جو وہ عراق سے سمیٹ چکا تھا سو اب ایسے ممالک جہاں وہ اپناے مفادات چاہتا تھا اس نے وکی لیکس طرز ہی کو نقل کیا اور کہا جا رہا ہے کہ پانامہ لیکس بھی اسی سوچ کا ایک حصہ ہے،پانامہ لیکس کے بارے میں وکی لیکس نے امریکہ پر الزام عائد کیاہے کہ پانامہ پیپرز جاری کرنے کا مقصد امریکہ کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوتین کو نشانہ بنانا ہے اور مبینہ طور پر اس کیلئے یوایس ایڈ اور سوروز کی جانب سے فنڈنگ کی گئی ہے، اطلاعات کے مطابق آئی سی آئی جے اور وکی لیکس کے درمیان آن لائن جھگڑا ہوا جس کے دوران وکی لیکس نے یہ انکشاف کیاہے کہ امریکہ نے روسی صدر پوتین کو نشانہ بنانے کیلئے پانامہ پیپرز کی مالی امداد کی۔
جاری کر دہ پیغام میں وکی لیکس کا کہناتھا کہ ‘امریکہ کی او سی سی آر پی اچھا کام کرسکتی تھی،لیکن امریکی حکومت کی روسی صدر پوتین کو نشانہ بنانے کیلئے پانامہ پیپرز کی براہ راست ما لی معاونت سنجیدہ طور پر اس کی سالمیت کی کمزوری ہے،اسی طرح ان ہی الزامات کی زد میں آکر آئس لینڈ کے وزیراعظم کو عوامی دبائو کے تحت مستعفی ہونا پڑا ہے یہی نہیں بلکہ ان کیبیگم کے اثاثے پانامہ لیکس سے بے نقاب ہوئے تھے۔
یہ تو تھی دنیا کی کہانیاں اب اگر اپنے گھر میں نظر ڈالی جائے تو اپنے بھی کسی سے کم نہیں ٹھہرے اسی پانامہ لیکس میں وزیراعظم پاکستان کے خاندان سمیت 200پاکستانی شامل ہیں جو مبینہ طور پر قومی دولت لوٹ کر پاکستان سے باہر لے گئے،حیرت کی بعد یہ ہے کہ جس طرح پوری دنیا میں عوامی ردعمل سامنے آیا تھا اس طرح کا پاکستان میں عوامی سطح پر ردعمل سامنے نہیں آیا،لے دے کے ایک وہی تھا جو قوم کو رات کے اندھیرے میں خواب اور دن کی روشنی میں تارے دکھاتے نہیں تھکتا تھا،جس کی اپنی زبان شعلے اگل رہی تھی اور حکومت پر وار کرنے والے اسی عمران خان کا دامن بھی پاک نہ رہااور وہ بھی پانامہ لیکس کی زد میں آگئے۔
سیاسی نمبر بنانے کی خاطرمیڈیا پر ایک دوسرے پر الزامات اور اخلاق سوز گفتگو جاری ہے،شاید یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے عالمی اور پاکستانی میڈیا کے دبائو میں آکر قوم سے خطاب کیا اور اپنے خاندان کی صفائی پیش کی،کچھ ہی عرصہ قبلعمران خان نے اسلام آباد میں انتخابی دھاندلی کے نام پر طویل دھرنا دیا تھا اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا اور وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کی ذمے داری سونپ دی تھی،مگرعمران خان دھاندلی کے الزامات ثابت نہ کرسکے اور عدالتی جوڈیشل کمیشن نے میاں نواز شریف کو بری الذمہ قراردیا تھا۔
عوام نے اس فیصلے کو تسلیم کیا اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی حاضر سروس ججوں کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑا ،پنامہ لیکس کو عالمی سیاست کا دائو پیچ بھی کہا جا رہا ہے اور امریکہ کا اہم اتحادی یہی پاکستان بھی اسی عالمی سیاست کا حصہ بننے جا رہا ہے،امریکہ میں براجمان قیادت کو اقتدار بچانے کا لالچ ہے جو انہوں نے اپنے آخری انتخابات کے موقع پر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کو ایشو بنا کر کیش کیا تھا اور اب یہی پانامہ لیکس اس کا دوسرا کردار ہے۔
عالمی سایست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ امریکیوں کو اپنے مفادات کی خاطر جو کامیابی نصیب ہو گی اس میں پاکستان بھی پیچھے نہیں رہے گا اور پاکستانی قیادت بھی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے سلسلے میں بھی فرنٹ لائن پر آئے گی اور امکان یہی ہے کہ سپریم کورٹ کا نامزد عدالتی کمیشن شریف خاندان کو کرپشن کے الزامات سے بری قرار دے دیگا اور یوں شریف خاندان 2018 ء انتخابات میں بھی کلین سویپ کی پوزیشن پر آجائے گا جو کہ اب امریکہ کی مرضی کے مطابق ہے۔
تحریر : راشد علی راشد اعوان