جرمنی (انجم بلوچستانی) برلن بیورو کے مطابق PATجرمنی کے نامزد سینئر نائب صدر،خضر حیات تارڑ نے پانامہ لیکس پر پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اورقومی اداروںکے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں،جوبشکریہ اپنا انٹرنیشنل پیش خدمت ہیں: عوام پاکستان کوبخوبی علم ہے کہ ان نام نہاد لیڈران نے جمہوریت کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے،عوام کی دہلیز تک انصاف پہنچانے،ملک کو ترقی یافتہ بنانے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک سے واپس لانے کے وعدے اور اس قسم کے کئی خواب دکھائے
مگر یہ مفادات کی سیاست کرنے والے لٹیرے، اپنے ذاتی مفاد اور اس کرپٹ نظام کو بچانے کیلئے (کیونکہ انکی بقا اسی نظام میں ہے) اندر سے ان کا مک مکا ہوتارہتا ہے۔آپ کو یاد ہو گا کہ پی پی حکومت میں ن لیگ کے قائدین بڑے زور و شور سے پی پی کے قائدین کے پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنے،انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کر رہے تھے اورعوام ن لیگ کے ساتھ ان قائدین کے خلاف نعرے لگا رہی تھی۔
مگر جب ن لیگ کی حکومت آئی تو پھر ان کی خاموش رفاقت قابل دید بھی تھی اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے کی صحیح تصویر بھی۔اسی طرح دھرنے کے دوران جب مفادات کو ٹھیس پہنچنے لگی اور حقیقی معنوں میں پیٹ پھٹتے نظر آئے تو تمام کرپٹ سیاسی جماعتوں نے مفادات کی جمہوریت کو بچانے کیلئے ایکاکر لیا۔
ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے مفادات کی جمہوریت کیلئے بغلگیر نظر آئے اور جب جان بچ گئی تو عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے پرانی روش اختیار کر لی، کیونکہ سمجھ آ گئی کہ اگر ہماری مک مکا کی سیاست کو کچھ ہوا تو دونوں کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ لیکن اس مرتبہ حالات مختلف ہیں۔اس مرتبہ اگر قومی دولت لوٹنے والوں کے ساتھ مک مکا ہوا تو قوم انہیں مکا دے گی! اب سوال یہ بنتا ہے کہ ”کیا عوام کے ٹیکسز پر چلنے والے قومی ادارے مفاد کی سیاست کرنے والے کرپٹ لٹیروں کا ہی تحفظ کریں گے ؟”۔
اب جن جن اسٹیٹس کو پارٹیز،نام نہاد لیڈران اورمقتدر کرپٹ عناصر نے مک مکا کیا تو عوام پاکستان کو انہیں مکا دینا ہو گا۔ دوسری طرف پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد قومی اداروں کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کہ” کیا وہ صرف مفاد پرست ،قومی دولت لوٹنے والوں کا ہی تحفظ کریں گے؟ (جس طرح کہ اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر،نیب ،الیکشن کمیشن وغیرہ)یا کہ عوام پاکستان کیلئے بھی واقعی کچھ کر گزریں گے؟ موجودہ عالمی ثابت شدہ انکشافات کے بعدجو چہرے عوام کے سامنے آئے ہیں ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا اب الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کی اولین ذمہ داری بنتی ہے۔