اسلام آباد: باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سیکیورٹی لیکس کی تحقیقات کیلیے کمیٹی کی تشکیل میں تاخیر حکومت کی طرف سے سویلین کی تعداد سیکیورٹی اداروں کے نمائندوں سے زیادہ رکھنے پر اختلاف کے باعث ہو رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے کیساتھ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو بھی کمٹی کارکن بنانے پر مصر ہے جبکہ سیکیورٹی ادارے ڈی جی ایف آئی اے کی غیر جانبداری کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ کمیٹی کی تشکیل میں تاخیر پر تحفظات کے علاوہ اس کی ہیت کے بارے میں حکومتی اقدامات بھی شفاف تحقیقات کے حوالے سے شبہات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومتی لیت و لعل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ کسی کو بچانے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل رٹائرڈ امجد شعیب نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ہائیکورٹ کے رٹائر جج کی تقرری کرکے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔
یہی کام کسی اور نے کیا ہوتا تو حکومت اور انٹیلی ایجنسیاں ملکر اس کیس کو اب تک آرمی ایکٹ کے تحت رجسٹر کرکے قانونی کارروائی شروع کر چکی ہوتی۔ سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ حکومت کمیٹی بناکر وقت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کو سب پتہ ہے لیکن وہ کسی کو ذمے دار نہیں ٹھہرانا چاہتی۔ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کی کمیٹی کی رپورٹ نیوٹرل ہوتی، اب کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔