تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
پانامہ لیکس ایسا خدائی کوڑا ثابت ہوئی ہیں کہ ان کا اعلان ہوتے ہی ڈھیروں مقتدر افراد کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور کئی کے تو پاجامے فور١ً ایسے لیک ہوئے کہ اُف اللہ اُف اللہ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے انھیں واش رومز کی طرف بھاگ جانا پڑا”جنا ں کھادیاں گاجراں انہاں دے ٹڈ وچ پیڑ” پانامہ لیکس میں جن آف شور کمپنیوں کا ذکر ہے وہ لالچی اور بد کردار سرمایہ داروں کے کالے دھن کے تحفظ اور ٹیکس کے بغیر اربوں ڈالرز بنانے کا جدید وغلیظ فارمولہ ہیں۔
سوشلزم حتیٰ کہ کیمونزم کئی روپ دھار کر مختلف ممالک میں عارضی طور پرآیا اس کا نفاذ بھی ہوا مگر سرمایہ داری نظام اور بد طینت سرمایہ داروں کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ بالآخر اسی سرمایہ داری نظام اور اس کے علمبرداروں سے شکست پائی وجہ صاف ظاہر ہے کہ سرمایہ داری اور کمیونزم وسوشلزم چونکہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔کہیں سرمایہ دار اپنے ملازموں اور مزدوروں پر ظلم کرتا نظر آتا ہے اور کہیں کمیونسٹ پارٹی کے کرتا دھرتائوں کی ڈکٹیٹر شپ جو بظاہر ہمدرد و خلیق نظر آتی تھی۔
انتہائی ظالم اور سفاک ثابت ہوئی ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار ڈالا گیا کئی کو زندہ بھون ڈالا اور سینکڑوں افراد کو اجتماعی قبر نما کھائیوں میں دفن کردیا اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سرمایہ داری نظام کا اصل توڑ صرف اور صرف اسلام ہے ۔عقبری ٔاسلام اور نابغہ ٔ عصر ایک جید عالم دین نے کہا تھا کہ” سرمایہ داری ایک ناسور ہے اور اسلام اس کا نشتر ہے” وضاحتاً عرض ہے کہ کمیونسٹ تو سرمایہ دار کو ہی قتل کر ڈالتا ہے مگر اسلام سرمایہ دار اور اس نظام کو نا سور سمجھ کر اس کا نشتر ( چاقو) کے ذریعے آپریشن کرتا اور اسے صحت مند کرکے دوبارہ کام پر لگا تا ہے۔
پانامہ لیکس کے آتے ہی کئی سربراہوں ،وزرائے اعظم کو اپنے ملکوں کے اقتدار سے محروم ہونا پڑا جلدی میں استعفے دے ڈالے اگر اڑے رہتے تو بپھرے ہوئے عوام لازماً سڑکوں پر گھسیٹتے یا چوکوں پر ٹکٹکیاں لگا کر الٹا لٹکا ڈالتے مگر ادھر ہمارے ہاں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق جلسے جلوسوں کے ذریعے اس ناگہانی بھوت سے بچنے کے لیے آخری جدوجہد ہو رہی ہے جو کہ عملاً بے سود رہے گی کہ ڈوبتے جہاز سے تو چوہے بھی بھاگ نکلتے ہیں ہمارے محترم “شریفوں “کو تو بجا یاد ہے کہ سعودی عرب سدھا ر جانے کے وقت ائیر پورٹ پر کوئی آنسو پو نچھنے یا الوداع کہنے والا تک نہ تھا ۔مقتدر انگریزوں کے گھروں میں خدمت گزار باندیوں کی اولادیں جو بعد میں جاگیردار،وڈیرے اور تمندار کہلائیں وہ تو ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔اور قریبی عزیز اسحاق ڈار کو حلفی بیان ریکارڈ کروانا پڑا کہ کس طرح کالا دھن ہنڈیوں یا دیگر ذرائع سے باہر بھجوایا گیا تھا۔کالے دھن کے ” کارہائے نمایاں” کرنے والوں میں صرف ہمارے شریف صاحبان ہی نہیں بلکہ تقریباًنصف ممبران اسمبلی و وزارئ(سابقہ اور مو جودہ)اس”کارخیر “اوربنکوں سے ادھار لیا گیا سرمایہ بھی معاف کروانے میں ملوث ہیں۔
ہماری اسمبلیاں اور بڑی سیاسی جماعتیں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی راجھدانیاں ہیں۔بلوچستانی سیکریٹری خزانہ تو غالباً خزانہ ہی لوٹ کر گھر میں دفن کیے ہوئے تھے کہ نیب نے دھر لیا۔دو سابق وزرائے اعظم یوسف گیلانی اور راجہ اشرف کے نام ای سی ایل میں ڈالے جاچکے ہیںایجنسیاں سمجھتی ہیں کہ مال تو باہر دفن کرواچکے ہوں گے چلو “مُدا” کو تو نہ ہاتھ سے نکال بیٹھیں ۔پہلے ہی بیماری کا بہانہ خور چیمپئن کمانڈو مشرف دندناتا ہوا باہر نکل بھاگا۔کئی ایان علیاں حکمرانوں کا مال بیرون ممالک میںدفنانے کے لیے تیار ہیں۔سندھی حکومتی کئی وزراء موقع پاکر باہر ڈیرے ڈال چکے ہیں۔مگر دکھلاوے کے لیے اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کے نشتر چلائے اور خنجر چبھوئے جارہے ہیں۔
مقتدر سیاسی جماعتوں پر سود خور سرمایہ پرستوں کا قبضہ ہونے کی وجہ سے من تُراملا ں بہ گوئیم تو مراحاجی بگو کی طرح خود کو سبھی گنگا نہائے ہوئے سمجھتے ہیں۔اس لیے چور وی کہندے چور او چور اور لگالو جتنا زور۔تحقیقاتی کمیشن ، جے آئی ٹی ،ٹی او آرز وغیرہ سب “دل کے خوش رکھنے کے لیے غالب یہ خیال اچھا ہے” کی طرح ان سے نہ آج تک کچھ نتیجہ برآمد ہو اہے اور نہ ہی ہو گا۔سیاسی کرپٹ مقتدرخاندانوں کی حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار دونوں طرف رشتہ داریاں اور گہری تعلق داریاں ہیں ایم این اے ،ایم پی اے ہائوسز میں رات گئے سبھی اکٹھے شراب و کباب و دیگر رنگ رنگیلیوں کی محفلیں سجاتے ہیں اور دن چڑھے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے تگ و دو کرتے اور اس طرح غراتے نظر آتے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔اندرون خانہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ سارے کے سارے مال پر میں ہی کیوں نہ قابض ہو جائوں۔پانامہ لیکس کے مسئلہ کا عوامی حل ہی احسن طریقہ ہو گا جن جن کا نام ان میں آیا ہے یا مزید آئے گا۔انھیں میری سابقہ معروضات کے مطابق دیہاتی تھانیداروں کے سپرد کرڈالا جائے جو کہ مہینوں اور ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں نتیجہ آئوٹ کر دیں گے۔مال متال سے اپنا گھر بھی بھر لیں گے مگر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ کرکے سارا ہضم شدہ مال بر آمد ہو کر داخل خزانہ سرکار ہو جائے گا۔ اگر یہ کارنامہ مسلح افواج کی نگرانی میں ہو جائے تو بہتر ہو گا۔
تجربہ کے طور پر زرداری فارمولہ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ باہر سے ڈھیر سارا مال کما کر لانے والے ایک سندھی باسی کی رقم بنک میں جمع تھی اس کی ٹانگ کے ساتھ ریموٹ کنٹرول بم باندھا گیا۔اور دومزید آدمی اس کے ساتھ بنک میں روانہ کیے گئے اس نے رقم نکلوائی اور باہر آکر ان کے حوالے کردی اسے پتاتھا کہ اس نے بنک میں ذرا سی بھی چوں چراں کی تو باہر سے کنٹرول کیا گیا بم اس کے پرخچے اڑا کر اسے بھسم کرڈالے گا بیچار امرتا کیا نہ کرتا۔مال حوالے کردیا اور جان کی امان پاگیا۔پانامہ لیکس کے مجرموں کی ٹانگوں کے ساتھ بم باندھ کر انھیں کھلے گرائونڈ میں پریڈ کروائی جائے۔سبھی راز اگلوانے اور ثبوتوں کی فراہمی کے لیے ان کے گلوں میں ٹیپ ریکارڈر فٹ کیے جائیں یہ سبھی پہلے ہی چکر میں فر فر سارے راز اگل دیں گے کہ جاں ہے تو جہاں ہے۔اور جان تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے کہ “بھاڑ میں جائے سونا جو کانوں کو کاٹے” ہماری بہادر افواج نے دہشت گردوں کا بھرکس نکال دیا ہے اور کئی شہداء اس کے ماتھے کا جھومر ہیںاب ان کی تھوڑی سی توجہ سے معاشی دہشت گردوں کا بھی قلع قمع ہو سکتا ہے ملکی معیشت استحکام پذیرہو کر بیرونی قرضہ جات سے بھی مستقلاًجان چھوٹ جائے گی اور اربوں ڈالر واپس آنے سے ملک ترقی پذیر ہو گا۔
ایم کیو ایم فارمولا بھی سنیے یعنی جو مانگے ہوئے بھتہ یا منہ مانگامال دینے سے انکار کرے اس کی فیکٹریاں تک بمعہ مزدوروں کے جلا کر بھسم کر ڈالو۔ واضع رہے کہ اگر کوئی بھی جلدی انصاف والاطریقہ اختیار نہ کیا گیا تو غربت و مہنگائی کے جنوں اور اژدھوں کے ڈسے ہوئے خود کشیاں کرتے مظلوم افراد اور ان کے لواحقین جن کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے وہ اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتی ہوئی تحریک کے ذریعے مقتدر ہو کر سبھی مال نکلوا ہی لیں گے۔گیا وقت پھرہاتھ آتا نہیں اس وقت کوئی رو رعایت نہیں ہو گی ہو سکتا ہے چو کوں پر الٹا بھی لٹکنا پڑے۔
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا
سبھی بڑی سرمایہ پرست پار ٹیوں کو ہر صورت اپنے انجام کو پہنچنا ہے انھیں کسی بھی قسم کے اوچھے ہتھکنڈے اب زندگی کے لمحات عطا نہیں کرسکتے یہ کیسے ممکن ہے کہ غرباء تو بھوک ننگ افلاس کی وجہ سے بیوی بچوں سمیت جل مریں اوریہ بھاری رقوم بیرون ملک دفنا کر زندہ رہیں؟خدا ئے عز و جل کے حضور پسے ہوئے طبقات کی آہ و بقا پہنچ چکی ہیں خدا کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری