کچھ پنامہ کا نام لیتے ہیں کچھ پجامے کا نام لیتے ہیں جن کے کپڑے اتر گئے وہ سب زیر جامے کا نام لیتے ہیں
وہ یہ کہتے ہیں سب کمایا ہے لوگ کہتے ہیں لوٹ کھایا ہے انکے نزدیک سب حلال ہے یہیا کہیں سب ہی گول مال ہے یہ
تم نے لوہے کو کر دیا سونا کتنی محنت کی یہ کمائی ہے یا امانت میں کچھ خیانت کی یہ فقط ہاتھ کی صفائی ہے
کیا پسینہ کہیں بہایا ہے یا وطن کا ہی مال کھایا ہے شکر کرتے ہو تم فقط رب کا مال دراصل ہے یہ ہم سب کا
تم کو دینا پڑے گاہم کو جوابپائی پائی کا تم سے لیں گے حساب ہے یہ بہتر کہ احتساب کروان اثاثوں کا کچھ حساب کرو
اپنی دنیا بنا رہے ہو تم لوٹ کا مال کھا رہے ہو تم کیسے قسمت نئی سنواری ہے کیوں بھلا اتنی پردہ داری ہے
خفیہ فرمیں بھلا بنائیں کیوں ان میں رقمیں بھلا چھپائیں کیوں دوسروں کو یہاں بلاتے ہو اور خود ملک چھوڑ جاتے ہو
تم یہاں پر رہو مثال بنو ورنہ اک بد نما سوال بنو اپنے دامن کے داغ دھو ڈالو ورنہ عہدہ جوئے میں کھو ڈالو
یہ جو بھانڈا سڑک پہ پھوٹا ہے قوم کا اعتبار چھوٹا ہے قوم کہتی ہے دونوں ہاتھوں سے ملک کو تم نے خوب لوٹا ہے
قوم کا خون اور پسینہ ہےحکمرانوں نے جس کو چھینا ہے آگ دامن میں خود لگائی ہے خود ہی کہتے ہو اب دہائی ہے
قوم کو کچھ بتا نہیں سکتے جان لیکن چھڑا نہیں سکتے تم بہانے بنا نہیں سکتے بھاگ کر دور جا نہیں سکتے
جائیدادیں بنا رہے ہو تم قوم کا مال کھا رہے ہو تم نان و نفقہ کو ہم ترستے ہیں ڈالروں میں نہا رہے ہو تم
ایک سے آٹھ سو بنانے کا گر ہمیں واقعی نہیں آتا قوم کو کیوں سکھا نہیں دیتے آخر اس میں تمہارا کیا جاتا
ہم بھی اسٹیل مل کھڑی کر کے گر تمہارے وہاں لگا دیتے ہم بھی لوہے کی بھٹیوں میں پھر سونے چاندی کو بھی گلا دیتے
ہم بھی پی آئی اے کو کر کے ٹھیکساری دنیا میں پھر اڑا دیتے کر کے بیمار صنعتوں کا علاج پھر توانا انہیں بنا دیتے
اب توجوڈیشنل کمیشن ہی عصر حاضر کا اک تقاضا ہے سارا کچھ کھو کے بھی رہو گے شاد تم کو اللہ نے نوازا ہے
شرم سے سر جھکائے پھرتے ہو جانے کیوںبوکھلائے پھرتے ہو کوئی رستہ سمجھ نہیں آتا قوم سے مونہہ چھپائے پھرتے ہو
گر کمیشن نہیں بنائو گے اور ججز کو نہیںلگائو گے تم گرو گے ضرور کھائی میں گر نہ غلطی سے باز آئو گے
وہ تمہیں خوب آزمائے گا خوب رگڑا تمہیں لگائے گا پھر سے مولا تمہیں اٹھائے گا پھر تمہیں بادشاہ بنائے گا
تم سے انجم کا یہ رہا وعدہ خیر کی وہ خبر سنائے گا
تحریر : پرنس انجم بلوچستانی