تحریر : نادیہ خان بلوچ
اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس غلطی کی سزا سے بچنے کا ایک آسان اور کارآمد طریقہ یہ ہے کہ آپ سارے کا سارا الزام کسی دوسرے پہ تھوپ دیں اور خود اس سے بری ہوجائیں. یہ طریقہ میں اور آپ اور ہم جیسے کئی لوگ اپنے بچپن میں آزما چکے ہیں. بچپن میں اگر ہم سے کوئی نقصان ہوجاتا یا کوئی غلطی کر بیٹھتے تھے تو خود کو امی بابا کی ڈانٹ سے بچانے کیلئے اپنی غلطی اپنے سے چھوٹے بہن بھائیوں پر ڈال دیتے تھے. وہ اس لیے کہ ان سے عمر اور رتبے میں بڑے ہونے کی وجہ سے ہمارا ان پر رعب ہوتا تھا. لہذا وہ اپنی مزاحمت میں ہمارا نام لینا اپنی شامت آنا ہی سمجھتے تھے. اس لیے وہ اپنی ذاتی صفائیاں ہی پیش کرتے رہتے تھے بس ہماری موجودہ حکومت نے بھی کچھ ایسی ہی بچپن والی پالیسی اپنائی. ڈیڑھ ماہ قبل جب پاناما لیک منظر عام پر آئی. اس میں میاں صاحب کے پسران حسن نواز صاحب اور حسین نواز صاحب سمیت انکی بیٹی محترمہ مریم صفدر کا نام سامنے آیا تو پہلے پہل انہوں نے اسے ماننے سے ہی انکار کردیا۔
میاں صاحب کی خود اپنی اولاد ہی متضاد بیانات دینے لگی. ادھرکوئی کسی چینل پر ٹالک شوز میں کہتا ہے کہ انکے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں بلکہ انکی بہن کے نام پر موجود ہیں. تو ادھر کوئی کسی اور جگہ یہ کہتا نظر آتا ہے ایسا کچھ نہیں. یہ مخالفین کی سازش ہے. اور پھر میاں صاحب نے سارے کا سارا الزام اپوزیشن یعنی عمران خان صاحب پر لگا دیا. جنہوں نے ہمیشہ یہ دعوی کیا کہ میاں صاحب نے جو اثاثے ظاہر کیے وہ درست نہیں. وہ اپنے اصل اثاثے ظاہر کریں. انکی بیرون ملک جائداد ہے. یہ اپنا پیسہ پاکستان سے باہر لیکر گئے ہیں. تب بھی نواز شریف صاحب نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے جھٹلا دیا تھا. مگر جب مختلف ذرائع سے پاناما لیک میں آئے نام کی تصدیق ہوئی اور دنیا بھر میں اس پر بحث و مباحثے ہونے لگے آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفی دے دیا تو پاکستان کی موجودہ حکومت کے ہاتھوں کے طوطے،چڑیاں،کبوتر سب ایک ساتھ اڑ گئے. اپوزیشن نے یہ موقع اللہ کی دین سمجھا۔
اسے غنیمت جانتے ہوئے میاں صاحب کی حکومت پر چڑھائی کردی. اور اسکی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کردیا. اور اپنے ہر جلسے میں میاں صاحب چوراور اپنے ہر جلسے میں میاں صاحب چور کا نعرہ لگاتے نہ تھکتے اور تو اور انہیں ملک سے بھی بے دخل کردینے کی رائے دینے لگے. اور ہمارے میاں صاحب بھی بھلا کب خاموش رہنے والے ہیں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے خود کو معصوم ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی. کہ ہمیں تو ملک سے جلا وطن کیا گیا ہم نے سعودی بینک سے قرضہ لیا تب جاکر اپنا کچھ بنایا. ہم ملک سے کچھ لیکر نہیں گئے. اور ساتھ ہی انہوں نے پاناما کا شور کم کرنے کیلئے ایک بار پھر جلسہ کی سیاست شروع کردی. دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی. ایک دوسرے پر لعن طعن کرنا جیسے دونوں پارٹیوں نے ثواب سمجھ کر اپنے اوپر فرض کرلیا ہو. میاں صاحب کی تو بات ہی نرالی ہے کے پی کے میں جاکر خان صاحب کی حکومت پر وار کرنا چاہا. اسی دوران انکشاف ہوا پاناما لیکس کی دوسری قسط میں خان صاحب کا بھی نام آگیا ہے۔
جو آف شور کمپنیوں کے مالکان کو چور کہہ رہے تھے انکی خود کی لندن میں ایک آف شور کمپنی. وہ جنہوں نے پاناما پاناما کی گردان شروع کردی تھی. جن کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا احتساب اور وزیر اعظم کا استعفی. وہ خود اپنے بول میں پھس گئے. تبھی تو کہتے ہیں بڑے بول نہ بندیا. مگر خان صاحب نے اپنی باری سب کچھ اپنے اوپر حلال کرلیا. یعنی میاں صاحب کا کتا کتا. مگر خان صاحب کا کتا ٹومی. اپنا نام آنے کے بعد خان صاحب نے وزیر اعظم کو چور کہنا تو تھوڑا سا بند کردیا. کیونکہ دونوں ایک سے ہی ہوگئے. اب عوام کہاں جائے؟ کسکے در پہ انصاف مانگے؟ دونوں عوام کے بھرپور حمایتی ہونے کے دعوے دار ہیں اور دونوں نے ہی عوام کا خون چوسا. مگر حد ہے پھر بھی کمیشن بنانے اور احتساب کی رٹ ہر زبان زدعام ہے. میرے اور آپ کیلئے سوچنے کے بات ہے اگر کمیشن بن بھی جائے احتساب کی کوشش بھی کر لی جائے تب بھی انکا احتساب کسی بھی صورت نہیں ممکن. کیونکہ یہ احتساب سے ماورا لوگ ہیں پاکستان کی اگر تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے تو پاکستان بننے کے بعد سے لیکر آج تک کے موجودہ وزیر اعظم نوازشریف تک ہر دور میں ہمارے حکمرانوں نے کرپشن کی ہے۔
سابق وزرا اعظم شوکت عزیز اور یوسف رضا گیلانی کے آج تک کیس چل رہے ہیں اور وہ عدالتوںکے چکر کاٹ رہے ہیں. اسی طرح دو تین سال اس کمیشن پر برباد ہوں گے اور بنے گا کچھ بھی نہیں. دونوں پارٹیوں کے اعلی عہدیداران خود تو ایک دوسرے پر تنقید برائے تنقید کرنے میں مصروف ہیں مگر انکے چند درباری میڈیا پہ آکر نجی نیوز چینل پر انکا دفاع کرنے میں مصروف ہیں. عوام بھی تماشہ دیکھنا پسند کرتی ہے لہذا دونوں جانب سے عوام بھرپور لطف اندوز ہورہی ہے. سنا ہے وزیر اعظم صاحب ایک بار پھر بیمار ہوگئے ہیں اور پھر سے لندن یاترا پر جارہے ہیں. سنا ہے آج سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی اور خبریں ہیں پیپلز پارٹی بھی مکمل طورپر اپوزیشن کے ساتھ نہیں. خیر نواز لیگ اور پیپلز پارٹی تو جنموں کی ساتھی ہے. اور اب پاناما میں عمران خان صاحب کا نام آنے کے بعد یہ معاملہ کسی بھی صورت حل ہوتا دیکھائی نہیں دیتا۔
اگر خان صاحب احتساب مانگیں گے تو جملہ آئے گا تم بھی تو ہمارے ہی بھائی ہو. اور کسی بھی صورت صاف شفاف کمیشن بن ہی نہیں سکتا. اب ہمارے وزیر اعظم کوئی آئس لینڈ کے وزیر اعظم تو نہیں جو اس معاملے کی آزادانہ تفتیش کیلئے خودمستعفی ہوجائیں. اور ہماری عوام بھی تو لکیر پیٹنے والوں میں سے ہے. انہیں صحیح غلط تو تب یاد آتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہو. عوام اگر ابھی بھی ہوش کے ناخن لے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے. اپنی آنکھیں کھولے اور خود احتساب مانگے نہ کہ اپوزیشن پارٹیاں. ان سیاستدانوں کا کیا ہے؟ انکے مفادات تو ایک سے ہی ہیں عوام کے سامنے لڑتے ہیں اندھیروں میں گلے مل کے اپنے الو سیدھے کرتے ہیں. عوام اس وقت دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے اوپر سے بجلی بھی نہیں. پھر سورج چاچو نے بھی عوام حکومت کی طرح عوام کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں عوام دشمن کی چالوں سے مر رہی ہے. مگر ہمارے حکمران کبھی کرپشن کو دہشتگردی کہتے ہیں تو کبھی دھرنا کو دہشت گردی. سمجھ نہیں آتا عوام کی آنکھیں کب اور کیسے کھلیں گی۔
تحریر : نادیہ خان بلوچ