پانامہ کا ہنگامہ ہیجان انگیز ثابت ہوا۔ ملک میں سرگرم ہر سیاسی جماعت نے پانامہ کا راز کھلتے ہی سیاسی فضا کو مکدر کرنے میں اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ شکوہ جواب شکوہ کا سلسلہ دراز ہوا تو کہیں ڈھکے چھپے اور کہیں صاف لفظوں میں ملکی اداروں کو خوب لتاڑا گیا۔ یہاں تلک کہ متاثرین جن اداروں سے انصاف کی آس لگائے بیٹھے تھے، ان ہی اداروں پر ملفوف انداز میں طعنوں، تشنوں کا بازار بھی گرم کئے رکھا۔ بعض ناعاقبت اندیشوں نے تو شاہ کی وفاداریاں سمیٹنے کے لئے کھلے بندوں دھمکیاں بھی دیں۔
دشنام طرازیوں کا یہ سلسلہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنما جمہوریت کے ان بنیادی اصولوں سے نہ صرف خود یکسر نابلد ہیں۔ بلکہ انہوں نے اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی اس انداز میں نہیں کی جو ان کارکنوں کو ایسے حالات میں مدلل گفتگو اور تحمل کے ساتھ حالات کے مطابق رویہ اختیار کرنے میں مدد گار ثا بت ہو سکے۔ مخالفین کا نکتہ نظر سننے، اس کا عقلیت پسندانہ سطح پر جواب دینا، اور برداشت کا دامن تھامے رکھنا ہی سیاست ہے۔ اونچی آواز میں گفتگو، ہڑ بونگ، دھینگا مشتی، جگت بازی، کردار کشی اور ایسی ہی دوسری خرافات نے عوامی خدمت کے اس مشن کو نہ صرف بدنام کیا بلکہ سلجھے ہوئے افراد کے آگے آنے میں بھی بند باندھ دیا۔
جب رہنما ہی بہک جائے تو کارکنوں سے کیسا شکوہ۔ یہ اعتراف کرلینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں کہ سیاسی جماعتیں اس میدان میں قطعی بانجھ نظر آتی ہیں۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سیاست کے منظر نامے میں مکالمہ کم اور لفظی جنگ وجدل کی کیفیت زیادہ نظر آتی ہے۔ اگرچہ صحتمند مذاکرات، مانو اور منواؤ کی پالیسی وہ کنجی ہے جس سے سیاسی راہداریوں کے ہر بند کواڑ کو کھولا جا سکتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے اس بات کا کبھی ادارک ہی نہیں کیا کہ ان پر کس قدر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جماعتوں سے وابستہ ہر چھوٹے، بڑے کارکن کی سیاسی سطح پر اس انداز میں ذہنی آبیاری کرتے کہ ان کے قول و فعل میں سیاسی بالغ نظری جھلکتی نظر آئے۔ وائے رے قسمت کہ کارکن خواہ ان کا تعلق کسبی جماعت سے ہو “شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار “ہونے کے ناطے “بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا” کے مصداق وہ کچھ کر بیٹھتا ہے جسے کوئی بھی صاحب عقل و دانش تسلیم نہیں کر سکتا۔ لوگوں کے ذہنوں میں توڑ پھوڑ اور تقاریر کے ایسے کئی حوالے ابھی محفوظ ہوں گے۔
ملکی سیاسی جماعتیں وہ اعلیٰ جمہوری اقدار اختیار کرنے اور کارکنوں کو اس کی پاسداری سکھانے میں بھی یکسر ناکام نظر آتی ہیں جن اقدار کے ذریعے ریاست میں جاری سیاسی نظام کو بجائے آکسیجن ٹینٹ میں رکھنے کے اسے ایک فعال اور صحتمندانہ روش پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ اس المیے سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے بھی کبھی اپنے اردگرد اکٹھے ہونےوالے مداح سراؤں کی فوج طفر موج کی بیخ کنی یا ان کی حو صلہ شکنی کے موثر اقدامات نہیں کئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ادارے کمزور اور صاحبان اقتدار مضبوط ہیں۔ حالانکہ ریاست کا انتظام وا نصرام چلانے کے لئے اداروں کا مضبوط ہونا ضروری ہے ورنہ ریاست میں پھیلی طوائف الملوکی نہ صرف صاحبان اقتدار کے لئے خطر ناک نتائج لاتی ہے بلکہ انتقامی سیات کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اچھے اور مستحسن فیصلے دیرتلک یاد رکھے جاتے ہیں۔