اسلام آباد: سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ جلد متوقع ہے تاہم اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ پاناما پیپرز کیس کے فیصلے میں کسی فریق کے خلاف کوئی آبزرویشن نہ دی جائے۔
اٹارنی جنرل نے 12صفحات پر مشتمل معروضات اور دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی ہیں۔ اٹارنی جنرل آفس کے ذرائع نے بتایا کہ عدالت سے استدعاکی گئی ہے کہ فیصلے میں ایسی کوئی بات نہ لکھی جائے جس سے فریقین کومتعلقہ فورم پرمقدمہ لڑنے میں تعصب اوردشواری کا سامنا ہو۔ واضح رہے کہ جمعے کوپاناماکیس کی سماعت کے اختتام پرایڈیشنل اٹارنی جنرل وقار رانانے بینچ سے استدعا کی تھی کہ اٹارنی جنرل آفس کو اس کیس میں تحریری جواب جمع کرانے کی اجازت دی جائے،اس درخواست پرعدالت نے جواب جمع کرانے کی زبانی اجازت دے دی تھی جو گزشتہ روز جمع کرادیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ جواب میںموقف اختیارکیاگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق ذرائع سے زیادہ اثاثے رکھنے کاجرم اس وقت تصورہوتاہے اگرسرکاری عہدے کے غلط استعمال اوراثاثے بنانے میں کوئی تعلق ثابت ہوتا ہو۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کیس میں بھی مکمل دائرہ اختیارسماعت کی عدالت میں یہی چیزثابت ہو۔
اٹارنی جنرل آفس نے بھارتی سپریم کورٹ کے2011ء کے رام جیٹھ مانی کیس کے فیصلے کے حوالے پربھی اعتراض اٹھایا ہے۔ اس کیس میں بھارت کی سپریم کورٹ نے بھارتی شہریوں کے غیرملکی اکاؤنٹس کی چھان بین کیلئے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنائی تھی۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ پاناماپیپرزمقدمے میں کیس لاء کابطور عدالتی نظیرحوالہ نہیں دیا جاسکتا۔ اٹارنی جنرل کے جواب سے پہلے وزیراعظم نوازشریف نے بھی اپنے وکلاء کے ذریعے تحریری جواب جمع کرایا تھا جس میں انھوں نے جے آئی ٹی کا یہ دعویٰ مسترد کردیا کہ انھوں نے اپنی ملازمت سے متعلق معلومات چھپائی ہیں۔