تحریر: شاہ بانو میر
مام یہ یہ سارے بیکار کاغذ ہیں انکو پھینکنا ہےـ ایک بڑا سا شاپر کاغذِوں کا بھر کر بیٹے نے ہاتھ میں تھمایاـ آج ہی فأنل ٹیسٹ ختم ہوئے تو سارے مہینے کی تیاریوں والے رف پیپرز مجھے تھما رہاـ شاپر باہر لیجاتے ہوئے ایسے ہی ایک خیال آیا کہ ایک وہ دور تھا جب کاغذ نہی تھا لوگ کوئی اہم پیغام پتوں پر یا ہرن کی کھال پر لکھتے تھے پھر جدید دور کی بنیاد پڑتی دکھائی دی لباس نے پتوں کی جگہ لے لی اور لکھائی پڑہائی نے کھال کو الگ کر کے کاغذوں کی صورت اختیار کر لیـ
یہ کاغذ کس قدر اہمیت کے حامل ہین کہ کہیں توعمر بھر کے خوبصورت نازک سے بندہن میں آپکو باندھ کر بطور ثبوت محفوظ ہو جاتے ہین ـ کہیں کسی قوم کو گروی لکھ کر وہ کاغذ محفوظ کر کے صدیوں کی غلامی مقدر بنا دی جاتی ہےـ
کہیں کسی ملک کو اقتصادی طور پے بلندی کی طرف لیجاتے ہوئے کئی معاھدوں کی صورت مضبوطی الماریوں میں محفوظ ہوجاتے ہیںـ کہیں جھوٹی رپورٹ کی صورت تحریر ہو کے کسی خاندان کیلئے بربادی کا پیغام لے آتے ہیں کہیں بلیک وارنٹ بن کر زندگی سے نجات کا باعث کہیں امن کے سمجھوتے تحریر ہو کے زندگی کو ضمانت ملتی ہےـ
کہیں محبتوں کی سفارتکاری کرتے ہوئے دنیا بھر میں امن کے سکون کے علمبردار بن کے پڑہے جاتے ہیں ـ کہیں اپنے گھروں سے دور برفیلے پہاڑؤں پر مائنس 15 میں ماں کے آنسووں سے لبریز کاغذ آنکھوں کو تر کر جاتا ہے ـ تو کہیں کئی دن سے خندق میں جاں جوکھم میں ڈالے ہوئے با وفا بیوی کا محبت نامہ ملتا تو آنکھیں کئی سہانے خواب بننے لگتی ہیںـ
یہ کاغذ ہر طرح سے اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں ـ اس دوراتنا اہم میں شائد کوئی رشتہ کوئی تعلق کوئی واسطہ نہی رہا جتنا اہم یہ کاغذ ہے خاص طور پے جب اسکی شکل نوٹ کی مانند ہو جائے ـ اسکی اہمیت اسکی ضرورت ہر خاص و عام کو ہے اور اپنے رشتے اپنے ناطے آج اسی کے ہونے سے مضبوط بھی ہیں اور مخلص بھی ـ جہاں اس کی حیثیت نوٹ کی صورت مستحکم ہے وہ گھرانہ آج کے دور میں آپکو ہنستا کھیلتا بے فکری کا شکار نظر آتا ہے لیکن اکثریت اس بظاہر معمولی کاغذ کے اس قیمتی رُخ کو دیکھنے سے چھونے سے محروم ہو رہی ہے ـ یہ کاغذ کتنا اہم ہے کہ اگر یہ نہیں ہے تو تو افلاس ہے غربت ہےـ بھوک ہے تنگدستی ہے خود کشی ہے مایوسی ہے موت ہےـ
کبھی ایک دور تھا جب سادگی تھی روایات تھیں تہذیب تھی اور نفسا نفسی نہیں تھی ـ تب زندگی پر حق سب کا تھا بادشاہ وقت تب بھی آمر تھے عیاش تھے عوام تب بھی فقر و فاقہ میں ہی شب و روز بس ر کرتی تھی لیکن یہ لفافے میں بند کر کے دیں تو دنیا آپ کی مُٹھی میں ِ شہرت مصنوعی کامیابی پر مبنی رپورٹ کہیں بھی کسی بھی جگہہ لگوا کر آپ گھر بیٹھے لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن سکتے ہیں٬ـ
اشتہار بازی میں اپنی جعلی ادویات کو مؤثر نوٹ دکھا کر راتوں رات اربوں پتی بن سکتے ہیں٬ یہ ہے وہ کاغذ جس کا کمال آج کی یہ دنیا ہے٬ جو افراتفری اور ہنگامہ آرائی دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اب کی جا رہی ہے لوٹ مار کا بازار گرم ہےـ اقربا پروری رشوت ستانی نے کیسے غریبوں سے انکے بچوں کی نوجوانی چھینی اور جینے والے دنوں میں انکو قبر کی تاریکیاں نصیب ہو گئیںـ
صرف اس کاغذ کے کیلیے وہ شاپر ہاتھ میں ہے اور میں اسکو اب پھینکنے لگی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ کاش وہ کاغذ جو نوٹ کہلاتے ہیںـ٬میرے ملک کے ہر غریب کے پاس ایسے ہی بھر بھر کے شاپرز ہوں جو کسی ماں سے اسکے جوان بیٹے کو نہ چھینے اور نہ ہی بہنوں سے روزی روٹی کے حصول میں نوٹ نما کاغذ انکے بھائی جدا کرےـ یہ کاغذ ہیں ردی کے بیکار نوٹ نہیں ہیں انکو پھینک دیا ہے لیکن اسی کاغذ کی وہ صورت جو نوٹ کی ہےـ وہ صرف چند ہاتھوں میں قید ہیں انکو ان ہاتھوں سے لیکر سب میں بانٹنا ہے اگر زندہ پاکستان چاہیے تو ورنہ تو ہر گذرنے والا دن قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہےـ نوٹ نما کاغذ آج برابر بانٹ دیا جائے تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہےـ صرف کاغذ اسکی منصفانہ تقسیم باقی مسائل کو خود بخود حل کر دے گیـ
تحریر: شاہ بانو میر