افواہ نفرت والوں نے اٹھائی ہوئی ہے
بیوقوفوں کی طرف سے پھیلا ہوا اور بیوقوف کی طرف سے قبول کیا گیا
راستے سے گزرتے ایک بوڑھے آدمی کی ایک نوجوان سے تْو تکار ہوگئی۔ تھوڑی دیر بحث مباحثہ کے بعد نوجوان وہاں سے چلا گیا، بوڑھے آدمی کا غصہ اب بھی اپنی جگہ قائم تھا۔ وہ کسی طرح اس سے اس لڑائی کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ جسمانی طور پہ کمزور ہونے کی وجہ سے وہ نوجوان سے مار پیٹ تو نہیں کر سکتا تھا لیکن اس نے اسکا ایک اور حل نکالا۔۔۔ بوڑھے نے نوجوان کے بارے میں “افواہ” پھیلانا شروع کردی کہ وہ “چور” ہے۔ وہ ہر رہ گزر سے یہی بات کرتا۔۔۔ کئی لوگ اسکی بات کو ان سنا کرتے لیکن چند لوگ یقین بھی کرلیتے تھے۔ کچھ دن گزرے تو پاس کے علاقے میں کسی کی چوری ہوگئی۔ لوگوں کے دلوں میں بوڑھے نے پہلے ہی نوجوان کے خلاف شک ڈال دیا تھا۔ چوری کے الزام میں نوجوان کو پکڑ لیا گیا۔۔ لیکن چند ہی دنوں میں اصل چور کا پتا لگنے پہ اسے کو رہائی مل گئی ۔۔ رہا ہوتے ہی اس نے علاقے کے سردار سے بوڑھے آدمی کی شکایت کی جس کی بنا پہ بوڑھے کو پنچائیت میں بلایا گیا۔ بوڑھے نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے صفائی پیش کی۔۔ سردار نے بوڑھے کو حکم دیا کہ اس نے جو جو افواہ نوجوان کے بارے میں پھیلائی ہے۔۔ وہ سب ایک کاغذ پہ لکھے اور پھر اس کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے چوراہے میں جا کے ہوا میں اڑا دے۔۔ اگلے دن بوڑھے کی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا۔بوڑھا سردار کا حکم بجا لایا ۔ کاغذ پہ سب کچھ لکھا اور اس کے ٹکڑے ہوا میں اڑا دیے۔ اگلے دن جب پنچائیت لگی ۔ سبھی لوگ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے رحم کی استدعا کی۔۔ سردار نے کہا کہ اگر وہ سزا سے بچنا چاہتا ہے تو کاغذ کے وہ سارے ٹکڑے جمع کرکے لائے جو کل اس نے ہوا میں اڑا دیے تھے۔ بوڑھا پریشان ہو کے بولا کہ’ یہ تو ناممکن سی بات ہے’
سردار نے جواب دیا کہ تم نے نوجوان کے بارے میں اسی طرح ہوا میں “افواہ” پھیلائی۔۔ تمہیں خود بھی اندازہ نہیں ہے کہ تمہاری یہ “افواہ” کہاں کہاں تک پہنچی ہوگی۔اگر تم کاغذ کے ٹکڑے واپس نہیں لا سکتے تو وہ “افواہ” کیسے واپس لاؤ گے جس کی وجہ سے نوجوان بدنام ہوا ہے ۔ بوڑھے نے ندامت سے سر جھکا لیا۔۔۔ ایسے بوڑھے جوان مرد و خواتین ہماری اس سوساٸیٹی کا حصہ بھی ہیں بس دیکھنا یہ ہے کہ کہیں ہم تو ان میں شمار نہیں ہوتے ۔ یہ انگریزی زبان کا ایک چھوٹا سا قصہ جس کا میں نے آپ کے لیے ترجمہ پیش کیا مگر راقم ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی طرف سے یہ تحریر اپنے تعلقات کو حسین و جمیل بناے رکھنے کا ایک نسخہ ہے ایک ایسا نسخہ کہ جس کا استعمال آپ کو بدگمانیوں ,نفرتوں , سے بچا لے گا . جب بھی کسی کی عدم موجودگی میں مذاق سے بھی بات کریں تو اس کی اچھاٸی ہی بیان کریں بعض اوقات آپ کے منہ سے نکلے الفاظ کسی کے کردار کی سفید چادر پر داغ ثابت ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات آپ کا کہا ایک جملہ کسی کی زندگی کو چار چاند لگا سکتا ہے۔ انسان بہت حریص اور لالچی ہوتا ہے .جلد بازی میں بہت سے ایسے قدم اٹھاتا ہے اور زبان کا ایسا استعمال کرتا ہے جس سے عموما دوسروں کو نا قابل اتلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے .اسلام میں غیبت سے منع کیا گیا ہے اور اس ممنوع کام میں آپ خود بھی دیکھ سکتے ہیں غیبت کرنے والے اکثر مبالغہ آرای سے کام لیتے ہیں. نفرت عام پھیلنا شروع ہو جاتی ہے اور کسی کی شخصیت پر بد گمانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں.
کئی بار ہم بنا تصدیق کے لوگوں کے بارے میں “افواہیں” پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ ہماری بنا سوچے سمجھے کی گئی چھوٹی سی بات کسی اور کی زندگی پہ کتنا اثر انداز ہو سکتی ہے اسکا شائد ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے منہ کھولنے سے پہلے تصدیق بہت ضروری ہے.جن کو انسان اپنا کہتا ہے ان کے لیے زبان کی احتیاط بہت ضروری ہے. اللہ ہمیں ایسی غلطیوں سے محفوظ فرماے .امین