لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان اور بھارت کے کسانوں کے حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ماضی میں سنتے تھے کہ بھارت میں کسانوں کو بہتر سہولتیں ملتی ہیں تاکہ وہاں فوڈ سکیورٹی کو کوئی تھریٹ نہ ہو۔ انسان ہر دکھ‘ غم اور جبر سہہ لیتا ہے لیکن اگر اسے خوراک نہ ملے تو وہ بغاوت پر اتر آتا ہے‘
نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔لہٰذا بھارت‘ جو تقریباً ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہے‘ کا فوکس زراعت پر رہا ہے تاکہ اتنی بڑی آبادی کو خوراک فراہم کی جاتی رہے۔ لیکن اب کسانوں میں احتجاج بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے دور میں کسان اب اتنا جاہل نہیں رہا کہ دنیا کے حالات کو نہ جان سکے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ اس کے ساتھ شہری بابوز کیا کر رہے ہیں اور کسانوں کا استحصال کون اور کیوں کر رہا ہے۔ اب کسان کو احساس ہو رہا ہے کہ اس کو اس کی محنت کی پوری قیمت نہیں مل رہی۔ اس لیے اب بھارتی کسان دلی کی طرف مارچ کرتے اور اپنے مطالبات کے لیے لڑتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اسی طرح کے کچھ آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ شہباز شریف دور میں کسانوں کو لاہور کی سڑکوں پر مارا گیا‘ پھر بھی وہ اپنے مطالبات کے لیے اکٹھے ہوتے رہے۔ کچھ اسلام آباد تک بھی پہنچ گئے تھے لیکن تشدد کرکے انہیں واپس بھیج دیا گیا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ پاکستان کا کسان اتنا آرگنائزڈ نہیں‘ جتنا بھارتی کسان ہو چکا ہے۔ اب بھی دیکھ لیں پاکستانی کسان کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ تین ماہ میں کھاد کی بوری کی قیمت ڈیڑھ سے دو سو روپے بڑھ گئی ہے۔
حال یہ ہو چکا ہے کہ پچھلے دنوں عمران خان صاحب کی کابینہ میں ایک سمری بھیجی گئی‘ جس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی کسان گندم اگانے پر فی من بارہ سو چوراسی روپے خرچ کرتا ہے اور تیرہ سو روپے من بیچتا ہے اور اسے ایک من پر صرف سولہ روپے منافع ہوتا ہے۔ اب اندازہ کریں کہ چھ ماہ کی محنت کے بعد صرف سولہ روپے منافع۔ داد دیں اس کابینہ کو کہ اس کے باوجود اس نے گندم کی سپورٹ پرائس بڑھانے سے انکار کر دیا۔ پھر جو حشر گنے کے کسانوں کا ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پہلے شوگر کرشنگ سیزن اکتوبر سے شروع ہوتا تھا۔ پھر کسی سیانے نے شوگر مل مالکان کو مشورہ دیا کہ حکومتوں کو ذرا دبائو میں لائو‘ ان سے سبسڈی لو اور اگر وہ اربوں کی سبسڈی نہ دیں تو پھر گنے کا سیزن مت شروع کرو‘ یوں کسان سڑکوں پر آئے گا اور حکومت مجبور ہو جائے گی۔ انہیں پوری قیمت بھی مت دو۔ شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کا نیک کام نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں شروع کیا تھا‘ جب بھارت کو چینی بھیجنے کے لیے یہ بہانہ کیا گیا کہ حکومت رعایت دے تاکہ ہم سستی چینی بیچ کر ڈالرز کما سکیں۔ یوں اس کے بعد ہر سال شوگر لابی نے ایک یا دوسرے بہانے سے سبسڈی لینا شروع کر دی۔ اب ہر سال یہ ہوتا ہے کہ کرشنگ تاخیر سے شروع کی جاتی ہے اور کسان سڑکوں پر رل جاتا ہے اور منتیں ترلے کرکے کوڑیوں کے مول اپنا سودا بیچتا ہے۔ پھر اسے پیسے لینے کے لیے سارا سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔پاکستانی کسان سارا سال ذلیل ہوتا رہتا ہے لیکن ابھی تک چند باتیں اس کی سمجھ نہیں آ سکیں کہ اس نے اس کارپوریٹ ورلڈ کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ پاکستانی کسانوںکو بھی اب بھارتی کسانوں سے سیکھنا ہو گا۔ حکومتوں کو جھٹکے دینا ہوں گے۔ بھارتی کسانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ کتنی ہی طاقتور حکومت کیوں نہ ہو اسے پھر بھی سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو مودی سے پوچھ لیں