نیوکلیئرتجربہ کرنا کتنا سادہ اور آسان ہے؟
امریکی ادارے سی آئی اے کو چکمہ دینا کتنا آسان ہے؟
بھارت مقبوضہ کشمیر میں تنائو پیدا کرکے کیسے بین الاقوامی میڈیا اور اداروں کی توجہ ہٹاتا ہے؟
اور ایٹمی دھماکا صرف پانچ سے سات آدمی بھی کرسکتے ہیں۔ ۔ جی ہاں اگر ان سب سوالوں کے جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بالی ووڈ کی فلم “پرمانو” دیکھنی ہوگی وہ بھی اگر آپ کے پاس فالتو وقت ہے تو۔ ۔
ایٹمی یا جوہری توانائی کو ہندی زبان میں پرمانو کہتے ہیں یعنی اس فلم کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلم کی کہانی جوہری تجربے کے واقعے کے گرد گھومتی ہے۔ بالی ووڈ میں نہ صرف فلم کی کہانی اور اسکرپٹ بدلا ہے بلکہ فلم بینوں کا ٹیسٹ بھی بدل چکا ہے گزشتہ کچھ عرصے میں بالی ووڈ میں بائیوگرافک اور سچے واقعات پر مبنی کہانیوں نے فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ یہ سلسلہ”بھاگ ملکھا بھاگ” سے شروع ہوا۔ اس کے بعد میری کوئین، لکھنو سینٹرل، دی غازی اٹیک اور دنگل جیسی فلموں نے کافی داد سمیٹی۔ ابھیشک شرما کی پرمانو فلم بھی بھارت کے1998 میں کئے گئے نیوکلیئر تجربے کی سچی کہانی پر مبنی ہے۔
بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ 1974 میں کیا تھا۔ اس کے بعد 1995 میں اس تجربے کو دہرانے میں ناکامی کا سامنا ہوا جس کے بعد 1998 میں اٹل بہاری واچپائی کےدور میں بھارت دوسرا ایٹمی تجربہ کرنے میں کامیاب ہوا اور یہ اسی تجربے کی کہانی ہے۔
فلم کے مرکزی کرداروں میں جان ابراہم، دائنا پینٹی، بومن ایرانی اور دیگر شامل ہیں۔ اس کہانی کی فلم سازی کیلئے جان ابراہم کی پروڈکشن کمپنی نے بھی معاہدہ کیا تھا جو ختم ہو گیا تھا اور فلم گذشتہ سال دسمبر میں ریلیز ہونی تھی لیکن پدماوت سے ٹکرائو سے بچانے اور پروڈکشن کمپنی کے جھگٰڑوں کے باعث فلم چار بار تاخیر کا شکار ہوئی اور اب اسے 25مئی کو ریلیز کیا گیا ہے، وہ بھی بغیر پروموشن کے۔ شاید پروڈیوسرز کو معلوم تھا انہوں نے کیا بنایا ہے، اس لئے بھی پروموشن نہ کی ہو۔
اب آتے ہیں ہم فلم کی کہانی پر تو کہانی اتنی جاندار نہیں کہ وہ ناظرین کو باندھ کر رکھ سکے۔ موضوع کے لحاظ سے فلم کوحب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہونا چاہئیے تھا لیکن اس پوری کہانی میں ایسا کچھ دیکھنے کو نہیں ملا سوائے آخری ایک منٹ میں جب فلم کی آدھی سے زیادہ کاسٹ بھارتی پرچم کو سیلیوٹ کررہی ہوتی ہے۔
نہ فلم کے ڈائیلاگ میں جان تھی نہ ہی موسیقی کچھ کام دکھا پائی۔ فلم کے مرکزی کردار اشونت رانا یعنی جان ابراہم کو کئی بار وطن کیلئے محبت اور کچھ کرنے کا درس دیتے سنا گیا ہے اور اس کےعلاوہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ فلم میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہے۔ شاید اسی لئے بھارتی تجزیہ کار ترن آدرش نے فلم کو اوسط درجے کی قرار دیا ہے۔
جب پوکھران میں جوہری تجربہ کیا گیا تھا تب بھارت میں مرکز میں قومی جمہوری اتحاد این ڈی اے کی حکومت تھی اور اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔ فلم میں ماضی کے کچھ ٹکڑے کاٹ کاٹ کر لگائے گئے ہیں جیسا کہ واجپائی کی اسمبلی میں تقریر اور دھماکے کے بعد کی تقریر وغیرہ۔ اسی طرح اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور بے نظیر کے کچھ کلپس بھی شامل ہیں۔ پوری فلم میں یہی دو چار چیزیں ہیں جو حقیقی ہیں، باقی سب فکشن ہی فکشن ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر کو ہمیشہ اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس بات کی گواہی فلم میں ملے گی۔ بھارت نے جب ایٹمی دھماکا کرنا تھا تو بین الاقوامی اداروں کی توجہ ہٹانے کیلئے اس نےمقبوضہ کشمیر میں اور لائن آف کنٹرول پر حالات خراب کر دیے تھے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ جان ابراہم ایک آئی اے ایس آفیسر ہوتے ہیں جو کہ اپنے باس یعنی وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو جوہری تجربے کا ایک پلان دیتے ہیں۔ جناب سیکریٹری صاحب وزیراعظم سے مشورے کے بعد تجربہ کرتے ہیں وہ بھی فلاپی کو دیکھے اور پلان کو مکمل پڑھے بغیر، لہٰذا وہ ناکام ہو جاتے ہیں جس پر جان ابراہم کو نکال دیا جاتا ہے۔ لیکن جان ابراہم ہیں کہ ان میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ وہ وطن کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں جب کہ ملک کو دوسرا کوئی شخص ایسا نہیں چاہتا۔ جان ابراہم ایک جنگجو کے بیٹے ہیں جنہوں نے ہندو چائنہ جنگ میں حصہ لیا اور میڈل بھی جیتا۔ اب جان بھی ملک کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بات ہر پانچ منٹ بعد فلم میں دہرائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جان ابراہم کے گھریلو جھگڑے بھی اس فلم کا حصہ ہیں۔
اس کے تین سال بعد وزیراعظم کا پرنسپل سیکریٹری بدلتا ہے اور انٹری ہوتی ہے بومن ایرانی کی۔ بومن ایرانی جان ابراہم کو ڈھونڈتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ پلان کیوں فیل ہوا تھا اور اب کیا کرنا چاہئیے۔ یہ سننا تھا کہ جان ابراہم جو پہلے سے ہی نیوکلیئر دھماکا کرنے کو بے چین تھے، فوراً تیار ہوگئے۔ صرف پانچ لوگوں کو چن کر انہوں نے ایک ٹیم بنالی۔۔ وہ ٹیم جس نے آگے چل کر فلم میں ایٹمی تجربہ کیا۔ ہیں نہ حیران کن۔۔۔
یہ ہی پانچ لوگ امریکی ایجنسی سی آئی اے کو بھی دھوکا دیتے ہیں، نیوکلیئر بم بھی لانچ کرتے ہیں، اس کے آفٹر شاکس کو بھی سنبھال لیتے ہیں۔ فلم میں یہی دکھایا گیا ہے۔
اور تو اور جب ایٹم بم کو لانچ کیا جا رہا ہوتا ہے تو ایک انجینئر چائے پی رہا ہوتا ہے اور دوسرا چپس کھا رہا ہوتا ہے جیسے جوہری تجربہ نہ ہو رہا ہے کوئی کبڈی کا میچ ہو رہا ہو۔ پرمانو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جوہری تجربہ کرنا کتنا آسان کام ہے۔ فلم میں اور کیا کیا اچھا اور برا ہے یہ تو میں نہیں بتا سکتا ورنہ آپ فلم دیکھنے کیلئے اپنا وقت اور پیسہ کیوں ضائع کریں گے۔