تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل
میرے جیتے جی تم اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی۔اس قسم کے دقیانوسی ڈائیلاگ تقریباً ہر پرانی فلم میں سننے کو ملتے تھے کہ غریب امیر سے شادی نہیں کر سکتا اور امیر غریب سے نہیں کبھی خاندانی رقابت آڑے آتی تو کبھی ذات پات، اگر امیر لوگ ہیں تو امیر خاندان میں ہی رشتہ ہوگا لڑکی غریب ہے تو رشتہ داروں میں ہی شادی ہوگی اکثر لڑکی کے انکار کرنے پر غیرت ،انا اور اپنی آن و شان کا مسئلہ بنا لیا جاتا اور لڑکی کو قتل کر دیا جاتا ، لیکن آج زمانہ اتنی ترقی کر گیا ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات باہمی رضا مندی اور نہایت خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل پاتے ہیں
اس کے باوجود گزشتہ بدھ جرمنی کے شہر ڈارمسٹیڈ میں ایک پاکستانی نے اپنی شریک حیات کے ساتھ مل کر اپنی انیس سالہ جوان لڑکی کو غیرت کے نام پر تشدد کرنے کے بعد قتل کر دیا،اس خبر سے جرمنی میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور ہر طبقہ نے شدید تنقید کی ،رپورٹ کے مطابق اکیاون سالہ پاکستانی جو عرصہ دراز سے جرمنی میں مقیم ہے اپنی بیٹی کی شادی پاکستان میں اپنے کسی رشتہ دار سے کرنے کا خواہش مند تھا اسکی شریک حیات بھی چاہتی تھی کہ لڑکی کی شادی پاکستان میں ہو تاکہ لڑکا اس رشتے کے توسط سے جرمنی آسکے ،لڑکی جو جرمن شہریت رکھتی تھی اور ایک پاکستانی لڑکا جو جرمن شہریت کا حامل ہے اسے پسند کرتی اور اسی سے شادی کرنا چاہتی تھی
جبکہ والدین کو یہ رشتہ قبول نہیں تھا ،میاں بیوی نے بیٹی کے انکار کو اپنی انا،آن اور غیرت کا مسئلہ بنا ڈالا ایک منصوبہ بندی کے تحت گزشتہ منگل کی رات دونوں نے اپنی بیٹی پر تشدد کرنے اور گلا دبانے کے بعد قتل کر دیا ،پولیس رپورٹ کے مطابق اس پاکستانی نے لاش ٹھکانے لگانے کیلئے اپنی بوڑھی والدہ کی وہیل چئیر استعمال کی لاش کو کار کی ڈکی میں ڈالا اور قریبی جنگل میں گڑھا کھود کر دبا دیا اس تمام عمل میں اسکی بیوی بھی شامل رہی،دوسری صبح ایک راہگیر نے جنگل میں خون اور دیگر نشانات دیکھ کر پولیس کو فون کیا اور چند گھنٹوں بعد انہوں نے سراغ لگانے کے بعد دونوں میاں بیوی کو گرفتار کر لیا ا ن دونوں پر قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا اگلے ہفتے عدالت میں پیشی ہے اور جج کے فیصلے کا انتظار اور دونو ں کو کم سے کم قتل کی پاداش میں عمر قید۔
اس قتل کے پیچھے اصل معاملات کچھ بھی ہوں ،اگر انسان کچھ دیر سوچ بچار کرے تو شاید اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں۔ جرمنی کے شہر فرائی برگ میں کرائمز پر تحقیق کرنے والے ایک پروفیسر کا کہنا ہے گزشتہ سالوں سے غیرت کے نام پر قتل کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ایسے واقعات خاندانوں کی ملی بھگت ہوتی ہے اور دیگر وابستہ و غیر وابستہ افراد پر گہرا اثر پڑتا ہے ایسے واقعات رونما ہونے کے بعد عام شہری سوال کرتا ہے کہ آخر یہ غیرت کونسی ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا ہو کر انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اس سلسلے میں کئی بار مسلمان معززین کے علاوہ اسلامک کلچرل ایسوسی ایشن کے چئیر مین سے بھی سوال کئے گئے تو انہوں نے جواب دیا غیرت کے نام پر قتل اور اسلامی قوانین کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہم اس بات کی شدید مخالفت کرتے ہیں
کیونکہ اسلام ،قرآن یا کسی حدیث میں اس بات کا ذکر موجود نہیں کہ جبری شادی کروائی جائے اگر کوئی انسان اپنی مرضی اور پسند کی شادی کرنا چاہتا ہے تو باہمی رضا مندی ،اتفاق اور دوطرفہ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرتے ہوئے رشتوں کو جوڑا جا سکتا ہے نہ کہ اپنی جھوٹی آن و شان یا غیرت کو بلاوجہ ذات کا مسئلہ بنا کر قتل وغارت کی جائے دنیا کے کسی مذہب میں اس قسم کے واقعات کی مثال نہیں ملتی، اس قسم کے واقعات کے بیک گراؤنڈ میں کئی دوسرے معاملات پوشیدہ ہوتے ہیں جو شاید کبھی انسان کو ذہنی طور پر اتنا پریشان کرتے ہیں کہ وہ قتل جیسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
کئی بار تحریر کر چکا ہوں کہ پاکستان میں انسانی حقوق نہ ہونے ، مالی مشکلات ، لاقانونیت اور وراثت میں ملی کئی ایسی چیزیں آج بھی موجود ہیں جو دلائل دینے کے باوجود لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوتیں ،بات مختصر سی ہے ،ہر انسا ن کا ذہن اور سوچ مختلف ہوتی ہے کئی بار آپ دلائل دے کر بھی کسی کا ذہن یا سوچ تبدیل نہیں کر سکتے اور کئی بار کسی کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ۔
پاکستان میں حکومتوں نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے زندہ رہنے کیلئے اچھے ماحول کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور ملک میں لوگوں کو دال روٹی کے حصول کے چکر میں ڈال کر زمین اس قدر تنگ کر دی گئی ہے کہ ہر انسان گھٹن محسوس کرتا ہے
راہِ فرار پانا چاہتا ہے ایسے میں اگر کسی کا کوئی چاچا ماما بیرون ملک رہائش پذیر ہے اور بد قسمتی سے اسکی کوئی جوان اولاد بھی تو اکثر و بیشتر ڈارمسٹیڈ جیسے واقعات کا پیش آنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں کیونکہ حکومتیں جب تک ملکی حالات درست سمت نہیں لے جائیں گیں بیرون ممالک میں بیٹھے چاچے مامے اپنے بچوں کو دباؤ میں آکر قتل کرتے رہیں گے اور بھانجا بھتیجا یا ماموں چچا اس کے قصورر وار نہیں حکومتیں ہیں اصل محاورہ ہے جیو اور جینے دو اور پاکستانی حکومتوں نے اپنی ٹھگیوں کو برقرار رکھنے اور عوام کے جینے کیلئے ایک نیافار مولا ایجاد کیا ہوا ہے۔ نہ جیونہ جینے دو۔
تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل