تحریر: ملک نذیر اعوان
اللہ پاک نے صاحب ایمان کو والدین کے فرائض کے حوالے سے واضح طور پر خبردار کیا ہے اور قران کریم میں سورة بنی اسرائیل میں آیت نمر ،24,23 میں اللہ پا ک نے ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے۔ تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو اگر تیرے والدین میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاہیں تو ان کو اف تک بھی نہ کہواور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب اور احترام سے بات کرنا اور ان کے سامنے نرمی اور انکساری سے جھکے رہنااور دعا کرتے رہنا کہ میرے پرودگار ان دونو ں پر رحمت فرمائے جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا اور پرورش کی اور اسی طرح کے احکامات دیگر مواقع پر بھی قران پاک میں بیان کیے گئے ہیںمگر آج جو ہمارے معاشرے کا کلچر بن چکاہے کہ والدین کوہر طریقے سے ستایا جاتا ہے یہاں تک کے بعض لوگ والدین کو گالیاں گلوچ بھی دیتے ہیں اور مارتے بھی ہیںاور گھر سے باہر نکال دہ دہتیے ہیں اسلام میں اس کی قطعًا اجازت نہیں ہے اور ایسے لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہو جاتا ہے تقربیاًآج سے نو سال پہلے کراچی میں غالباً سن 2006 میں بوڑھے اورضعیف العمر لوگوں کے لیے تین گھروں کو قائم کیا گیا تھا اور اس کے بعد اس میں اضافہ کر دیا گیا تھا ۔
مزید اضا فہ ہوتا جا رہا ہے ان گھروں میں رہائش پزیر زیادہ تر بوڑھے اور زیا دہ عمر کے لوگ ہیں جن کو اپنے بیٹے یا قریبی رشتہ دار چھوڑ کر گئے ہیں یہ وہ وجوہات ہیں جس نے والدین کی دیکھ بھا ل کو اجنبیوں کے حوالے کر دیا بعض اوقات یہ بھی سلسلہ سا منے آجا تا ہے کہ اگر میا ں بیوی دونوں ملازمت کرتے ہیں تو پھر والدین کی دیکھ بھال کون کر ے یہ بھی بہت مشکل وقت ہے کہ میاں بیوی کو اپنے بچو ں کی دیکھ با ل کے ساتھ والدین کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے جس نے والدین کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی ہو وہ بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی اسی طرح ان کی خدمت کرے اور یہ حقیت ہے کہ بچے والدین کو وہ مبحت اور پیار نہیں دے سکتے جو انہوں نے اپنے بچوں کو دیا ہو تا ہے جس ہمدردی اور جذبے کے ساتھ پوری رات جاگ کر ماں گزارتی ہے جب بچہ ڈر کے مارے رو رہا ہو تو ماں اس کے آنسو خشک ہونے تک بے آرام ہوتی ہے کیونکہ ماں کی پدری محبت ہوتی ہے مثال کے طور پر آپ روز مرہ کی مثال لے لیں اگر آپ مارکیٹ میں جائیں تو آپ کو کوئی خالص چیز نہیں ملے گی اگر آپ کو خالص ملے گی تو وہ صرف ایک چیز ہے جو اپنے بچوں کیلئے والدین کی مبحت ہے اور قرآن و حدیث کی رو سے اسلام میں والدین کو بڑی اہمیت حاصل ہے ایک مرتبہ ایک صحابی حضور پاکۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو اور فرمایا یا رسول ۖ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں تو آپ ۖ نے فرمایا کہ آپ کے والدین زندہ ہیں تو صحابی نے جواب دیا ۔
یا رسول ۖ زندہ ہیں تو آپ ۖ نے فرمایا یہ ہی آپ کا جہاد ہے اور آپ ۖ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر اولاد دن میں ایک دفعہ اپنی محبت بھری نظروں سے والدین کو دیکھ لے تو اللہ پاک اسے ایک حج کا ثواب عطا کرے گا تو صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول ۖ اگر ایک آدمی دن میں سو مرتبہ اپنے والدین کو محبت بھری نظروں سے دیکھے تو کیا اس کو بھی سو حج کا ثواب ملے گاتو میرے اور آپ کے پیارے آقا ۖ نے فرمایا میرے پیارے صحا بہ اس شخص کوبھی سو حج کا ثواب ملے گا تو اسلام میں والدین کی اتنی فضلیت ہے اور والدین کی عزت واحترام کی ایک مشال یہ بھی ہے کہ حضرت با یزید بسطامی فرماتے ہیں رات کو ایک دفعہ میری والدہ نے مجھ سے پانی مانگا تو میں پانی لے کر جب آپ کے بستر پر آیا تووالدہ سو چکی ہیں تو میں پوری رات پانی اٹھا کر ماں کے پاس کھڑا رہا تو صبح جب میری والدہ کی آنکھ کھلی تو میں پانی کا گلاس اٹھا کر کھڑا تھا اس کو والدین کی دیکھ بھال اور مبحت کہتے ہیں۔
تو اسی وقت حضرت با یزید بسطامی کی والدہ کے دل سے اپنے بیٹے کے لئے دعا نکلی کہ یا اللہ با یزید بسطامی کو اس کا اجر دے اور ماں کے دل سے نکلی ہوئی دعا کبھی رد نہیں ہوتی اور اس دن سے حضرت با یزید بسطامی کو اللہ پاک نے ولی کا درجہ عطا فرمایا اس لئے پیارے بھائیوںاور بہنوںسے Request کرتا ہوں کہ اپنے والدین کے ساتھ خوش اسلوبی سے بات کیا کریں کل آپ کو بڑھاپے کاسامنا کرنا ہے اگر آج اپنے والدین کا خیال کریں گے تو کل آپ کی اولاد بھی آپ کا خیال کرے گی کیوں کہ انساں کی فطرت ہے کہ وہ للہ کی نعمتوں کا شکر نہیں کرتا ہے ۔
والدین بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہیں مشال کے طور پر جس آدمی کی آنکھ نہیں ہے،پائوں نہیںہے اور ہاتھ نہیں ہے اس شخص کو ان اعضاء کی قدر ہے اس لئے ان بھائیوںپر ابھی کیا گزر رہی ہو گی جن کے والدین آج نہیں ہیں اس لئے اپنے والدین کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال اور خدمت کریں اور ان سے دعائیں لیں جس سے آپ کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی عیاض بن حمار سے روایت ہے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا(اور اس میں ہے)، کہ اہل جنت تین قسم کے لوگ ہیں ، وہ حکمران جو انصاف کرنے والا اور اعمال خیر کی توفیق دیا گیا۔وہ ہر آدمی جو ہر مسلمان اور رشتہ دار کے لئے مہربان اور نرم دل ہو ۔ اور سوال سے بچنے والا وہ شخص جو عیال دار ہونے کے باوجود کسی سے سوال نہ کرے
تحریر: ملک نذیر اعوان