تحریر : اختر سردار چودھری
پاکستان میں بھی مغرب کی نقالی میں اب وہ بھی عالمی دن منائے جاتے ہیں جن کوہمارے دین اسلام، مشرقی روایات میں فرض کا درجہ حاصل ہے ۔مثلاََ ماں کا عالمی دن ،والد کا عالمی دن ،والدین کا عالمی دن ۔حالانکہ والدین سے محبت کسی ایک دن کی محتاج نہیں ہے یہ تو پیدائش سے موت تک اولاد کے رگ و پے میں رچی بسی ہے ۔مغرب کی دیکھا دیکھی اب پاکستان میں بھی یہ دن منائے جاتے ہیں۔ مغرب میں تو ان دنوں کو منانے کی کئی ایک وجوہات ہیں ،یہ کہ وہاں والدین جب کسی کام کاج کے نہیں رہتے تو ان کو اولڈ ہاوس میں چھوڑ دیا جاتا ہے ۔پھر اولاد (جو کہ حقیقی کم ہی ہوتی ہے )دن کے دن اپنے والدین کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں پھولوں کے گلدستے ،ساتھ کھانا ،مصروف زندگی سے چند گھنٹے گزارناوغیرہ ۔حقیقی اولاد کا نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے پھر یہ بھی کہ وہاں مادیت کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے ۔ہمارے ہاںاولاد (جو کہ اکثر حقیقی ہی ہوتی ہے) کی اکثریت اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کرتے ۔ لیکن دکھ کی بات ہے ،مگرسچ ہے کہ ہمارے ہاں بھی اب والدین کی پہلے سی قدر کہاں رہی ہے۔
ہمارے ہاں بھی اپنے والدین کو اس وقت اکیلا چھوڑ دیا جاتاہے۔ جب ان کو ہماری ضرورت ہوتی ہے ۔حالانکہ انہوں نے تو اپنی تمام خواہشات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ہماری ہر خواہش کو پورا کیا ہوتا ہے۔ جب ہماری عمر ہوتی ہے کہ انہوں نے ہمارا خیال رکھنا ہوتا ہے وہ رکھتے ہیں ۔ ان کی اسی محبت خدمت ،اولاد کی پرورش وغیرہ کو خراج تحسین،قدر دانی ،شکریہ کے اظہار کے لیے مغرب میں 25 جولائی کو والدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس سے پہلے صرف مائوں کا عالمی دن منایاجاتا تھا جس کا آغاز ایک امریکی خاتون اینا ہاروس کی کوشش کا نتیجہ ہے ۔ اینا ہاروس چاہتی تھیں کہ اس دن کو ایک مقدس دن کے طور پر سمجھا اور منایا جائے ۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماؤں کا دن قرار دیا۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو مائوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں ماں کے عالمی دن کی کامیابی کے بعد والد کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے یوم باپ منانے کا آغاز ہوا۔اس دن کو عالمی سطح پر مقبولیت 1966ء میںحاصل ہوئی جب امریکی صدر لنڈن جونسن نے جون کے تیسرے اتوار کو فارد ڈے قرار دیا جبکہ 1972ء میں اسے امریکی قومی تعطیل قرار دیا گیا جس کے بعد سے ہر برس جون کے تیسر ے اتوارکو دنیا کے اٹھاون ممالک میں فادرز ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اسی طرح 25جولائی کو ہر سال والدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس کا مقصد والدین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے ۔ یوم والدین کا آغاز 1992ء سے ہوا جب امریکی کانگریس نے ایک بِل منظور کیا ۔ہمارے ہاں والدہ،والد کا دن تو دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن ان دونوں یعنی والدین کا عالمی دن ابھی اتنے اہتمام سے نہیں منایا جاتا مغرب کی نقالی میں ہمارے ہاں بھی مزدوروں، معذوروں، بیماروں، بندروں، کتوں، گھوڑوں، کے دن بڑے اہتمام سے منائے جاتے ہیں ۔مجھے کہنا یہ ہے کہ صرف دن منا لینے سے کیا ہوتا ہے؟ جب تک ہم حقیقت میں والدین کی خدمت نہ کریں ۔ اس کو جاننے کے باوجود کہ ہمارے اسلام میں والدین کی نافرمانی کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
قرآن پاک سورة بنی اسرائل کی آیات کا مفہوم ( اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوںبڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہو اور نہ ان کو جھڑکوبلکہ ان سے نرمی سے بات کرو اور اپنے بازوں کو نرمی اور عاجزی سے ان کے سامنے پھیلا ئو اور ان کے لیے یوں دعا کرو ۔اے میرے رب تو ان پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں مجھ پر رحمت اور شفقت کی ( آیت 32 تا 42 ) اور بہت سی احادیث میں زیادہ تر والدین کا ذکر آیا ہے یعنی ماں اور باپ دونوں کا ۔اسلام میں والد کے حقوق واحترام پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
افسوس کا مقام ہے ہم دین اسلام کے فرائض سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں ان میں سے ایک والدین سے حسن سلوک بھی ہے کہ مغرب کی اندھا دھند تقلید میں ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاوس بن رہے ہیں والدین کو اولاد ان کے گھر سے نکال رہی ہے یا خود ان کو چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے ۔اور اس بے حسی ،ظلم ،پر ذرا بھی شرمسارنہیں ہے موجودہ عہد میں والدین سے بد سلوکی،بد زبانی،طعنے دل دکھانے والی باتیں تو ایک معمول بن چکا ہے۔ اولاد اتنی مصروف ہو گئی ہے ان کے پاس ماں باپ کے پاس بیٹھنے،باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔
مغرب میں اولاد اپنے ماں باپ کو اولڈ ہومز میں داخل کروا دیتے ہیں یہاں ان کو گھر میں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے ، اولڈ ہومز میں تو بوڑھے اپنے دکھ درد ،داستان حیات سنا سنا کر وقت گزاری کرتے ہیں۔لیکن ہمارے ہاں ان کی باتیں سننے کا وقت کسی پاس نہیں ہوتا ۔جن والدین کو لوگ کیا کہیں گے ڈر سے ان کی اولاد اولڈ ہاوسزز میں نہیں چھوڑتی ان کا ان کی آخری عمر میں کیا حال ہوتاہے؟ ۔ان کو کتنی ذہنی اذیت دی جاتی ہے ؟ اس کو ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے اپنے اردگرد دیکھ لیں کیا پتا ہم بھی ان نافرمانوں میں شامل ہوں ۔ عموماََجب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو وہ بات بات پہ ضد کرتا ہے جس کی وجہ سے ان کی اولاد کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے اور اس وجہ سے ان کا رویہ والدین کے ساتھ ٹھیک نہیں رہتا۔کچھ بیوی کا بھی ہاتھ ہوتا ہے اس میں ،کچھ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بھی ہم شامل ہونا چاہتے ہیں
ہمارے ہاں بھی اکثریت ایسے والدین کی ہے جن کی زندگی درگوں ہے ۔ ایسے بھی واقعات اخباروں میں پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں بیٹے ماں،باپ کو جائیداد کیلئے قتل کر دیتے ہیں۔یہ کسی اور ملک کی نہیں ہمارے اپنے ملک کی کہانیاں ہیں ۔ اکثر لوگ ماں ،باپ کے احسان کو بھول کراْن کی محنت اور محبت کو فراموش کردیتے ہیں ۔بعض لوگ اپنے والدین کے اخراجات خوشی سے اْٹھاتے ہیں لیکن اْن کیلئے وقت نہیں نکال پاتے ۔دوسری طرف والدین کے اخراجات چار چار بیٹے مل کر نہیں اٹھا سکتے۔
آپ ۖ نے فرمایا کہ ”اس کی ناک خاک آلود ہوئی (ذلیل ہوا) یہ بات آپ نے تین دفعہ فرمائی۔ لوگوں نے پوچھا اے رسول اللہ کون ذلیل ہوا؟ آپ نے فرمایا ”وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان دونوں میں سے ایک یا دونوں کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا”۔(مسلم)ہم کو ہر روز شام کو تھوڑا وقت والدین کو دینا چاہیے ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے ،نرمی سے بات کرنی چاہیے ۔مغرب کی طرح سال میں کوئی ایک دن منانے کی بجائے اللہ کی خوشنودی کے لیے اس دن کوہر روز منانا چاہیے۔
تحریر : اختر سردار چودھری