تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال
قدرتی طور پر بہن بھائی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی اور پیار پایا جاتا ہے ۔(ذہنی ہم آہنگی کا تعلق کسی حد تک عمروں کے فرق سے بھی ہے) ماں باپ کے بعداگرکوئی محبت اورخوبصورتی بھرارشتہ ہے تو وہ ہے بہن بھائی کا۔لیکن محبت کو مجسم دیکھنا ہو تو ایک بہن کی آنکھوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔بھائی کے لہجے سے سمجھی جا سکتی ہے ۔ایک ہی ماں اور یا باپ کی مختلف مذکر و مؤنث اولادیں آپس میں بہن بھائی کہلاتی ہیں۔ بہن مؤنث کو جبکہ بھائی مذکر کو کہا جاتا ہے ۔بہن بھائی کا رشتہ ایسا ہے کہ اس کی مثال نہیں دی جاسکتی ۔یہ دونوں ایک دوسرے کے سب سے اچھے محرم راز ہوتے ہیں ۔بہترین دوست ہوتے ہیں ۔غم گسار ہوتے ہیں ۔جان نثار ہوتے ہیں ۔ان کا رشتہ محبت کا تو ہے ہی۔ کبھی لڑائی کا۔ کبھی دوستی کا۔ تو کبھی روٹھنے کا ۔ اور منانے کا ۔ بھی ہے ۔
جب ان کا بچپن ہوتا ہے تو ان کے دم سے گھر میں خوشیاں رنگ بکھیرتی ہیں ۔بہنیں باپ کا وقار، بھائی کی راج دلاری ہوتی ہیں۔بہنیں تو بھائیوں کے لیے قربانیاں دیتی ہی ہیں ۔بھائی بھی اپنی زندگی تک قربان کر دیتے ہیں ۔بہن بھائیوں کی محبت میں کوئی لالچ نہیں ہوتی ۔ان کی محبت ایمان کی طرح ہوتی ہے ۔لیکن ان دونوں کا ایک دوسرے سے محبت کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے ۔بھائی بہنوں کو تنگ کرکے اپنی محبت جتاتے ہیں ۔کبھی گڑیا چرا لی ۔چوٹی پکڑ کر کھینچ لی ۔ اپنی پاکٹ منی سے بازار سے کھانے کی کوئی چیز لا کر دے دی ۔ چھوٹی موٹی فرمائش پوری کر دی ۔ کہانیوںوالی کتاب لادی۔بہنوں کی محبت کا اندازبڑا انوکھا ہوتا ہے ۔وہ بھائیوں کو والدین کی ڈانٹ سے بچانے کے لیے ڈھال بنتی ہیں ۔بھائیوں کے رازوں کی حفاظت کرتی ہیں ۔چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کرتی ہیں ۔بھائیوں کی بکھری اشیاء کوترتیب سے رکھتی ہیں ۔بڑی محنت سے محبت سے ان کی پسند کے کھانے پکاتی ہیں ۔بہن بھائی آپس میں اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ کپڑے ، جوتے ، کتابیں اور دیگر چیزیں بانٹ لیتے ہیں اور انہی چیزوں پر لڑائی بھی کرتے رہتے ہیں۔ روٹھتے رہتے ہیں ۔خود ہی مان جاتے ہیں ۔
بہنوں کو گڑیوں سے محبت ہوتی ہے ۔بھائیوں کی گڑیا تو اس کی بہن ہی ہوتی ہے ۔بھائی اپنی گڑیا کو دل میں بسا کے رکھتے ہیں ۔اسے دکھ آئے تو تڑپ جاتے ہیں ۔پھر وقت کا چکر ان کو بڑا کر دیتا ہے ۔بچپن سے جوانی آتی ہے تو بہنوں سے محبت غیرت بن جاتی ہے ۔اس کا تحفظ ذمہ داری بن جاتی ہے ۔بھائی نوکری کے چکر میں لگ جاتے ہیں ۔بہنوں کی شادی ہو جاتی ہے ۔دونوں کے درمیان ملاقات کم ہو جاتی ہے ۔دونوں کو نئے ساتھی مل جاتے ہیں ۔بچے ہوئے تو ان میں مگن ہو گئے ۔لیکن اکثر ایک دوسرے کی محبت کسک بن کر دل میں اٹھتی ہے ۔آنکھیں بھگو جاتی ہے ۔بے شک وقت بدل جاتا ہے ۔لیکن محبت تو نہیں بدلتی ۔بھائی بہن کی محبت تو امر ہوتی ہے ۔کبھی نہیں بدلتی ۔بھائیوں کو بہنوں کی یاد ۔اور بہنوں کو بھائیوں کی یاد تڑپاتی ہے رولاتی ہے ۔
بچپن کے دن یاد آتے ہیں ۔جب بھائی سے اپنی بہن کا رونا نہ دیکھا جاتا تھا ۔وہ بیمار ہوتی تو بھائی کا سکون برباد ہوجاتا ۔بھائی اداس ہوتا تو بار بار بہن پوچھتی ہے ۔بھائی کیا ہوا اداس کیوں ہو ۔بچپن کے دن کتنے حسین ہوتے ہیں، ان کی یادیں کبھی آنکھوں میں آنسو لاتی ہیں تو کبھی چہرے پر مسکراہٹ ۔بہنیں تو بھائیوں کے لیے دعاؤں کی ایسی پاکیزہ کتاب ہو تی ہیں ۔
میری اچھی ۔۔۔ میری دلاری ۔۔۔میری پیاری بہن
کیا بتاؤں کہ تم میرے لئے کیا ہو
تم دعاؤں کی ایسی پاکیزہ کتاب ہو
جس کو پڑھنے سے غم جاتے ہیں اور دل بہلتے ہیں
تسلی کی زنبیل کھلتی ہے امیدوں کے چراخ جلتے ہیں
یوں جیسے تم میں نوروآگہی کے جھرنے بہتے ہیں
تمہاری بہت یاد آتی ہے ۔۔۔ دیر تلک ستاتی ہے
تم اکیلی ہو ۔۔۔ خوش ہو کہ اداس ، سوچ رلاتی ہے
اگر ہم اپنی بہنوں ،بیٹیوںکی تربیت اسلام کے اصولوں کے مطابق کریں ۔ان کی یہ بہترین تربیت ہو گی تو وہ آگے اپنی اولاد کی بھی بہترین تربیت کرے گی ۔اگر اسے اسلام کے احکامات کی تعلیم دی جائے تو ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے گا ۔اسلا م نے عورت کے بہن ، پھوپھی اورخالہ ہونے کی صورت میں بھی انکے حقوق کا بڑا خیال رکھا ہے ۔ چنانجہ ابوداؤد و ترمذی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ”اگر کسی کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہیں اور وہ انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا رہا ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا ۔( ابوداؤد ، ترمذی ) زاہد اکرم صاحب نے ”پیار سے پیاری بہن ”بہت خوبصورت نظم لکھی ہے، اس کے چندفقرے دیکھیں ان میں کتنا پیار چھپا ہے ۔
بہنا تو ہے پیار سے پیاری
بھیا کی سدا راج دلاری
چمن میں ہے تجھ سے لہک
مرے دل میں ہے تجھ سے مہک
تیرا پھول سا چہرہ سدا مسکراتا رہے
تیرا بھیا یونہی ترے نغمے گاتا رہے
تحریر: اختر سردار چودھری ،کسووال