تحریر: سلمان غنی، پٹنہ
فرانس میں ہوئی خوں ریزی کے بعد ایک دفعہ پھر عالم اسلام حاشیہ پر آچکا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس دفعہ اسلام اور قرآن پر اشارے کنایے میں نہیں بلکہ کھلے عام تنقید ہو رہی ہے۔ ٹی وی مباحثوں میں داعش کی فکر کو مودودی اور شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کی پیداوار بتایا جا رہا ہے۔ مسلم قیادتیں اور ملی رہنما چیخ چیخ کر اپنے مذہب کی بے گناہی ثابت کر رہے ہیں لیکن الزامات کا طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ داعش ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔
اس کی سفاکی اور بربریت اپنے حدود کو پار کر چکی ہے۔ داعش کیا ہے ؟یہ تنظیم کب بنی؟ اس کی پشت پناہی کون کر رہاہے؟ اوریہ تنظیم کس کی ایما پر کام کر رہی ہے؟ یہ سوالات اور اس پر مباحثے شاذ و نادر سننے کو ملتے ہیں۔ فرانس میں ہوئے حالیہ واقعہ کے بعد داعش کی طاقت، اسکی سفاکیت اور بربریت پر سنسنی خیز تبصرے ہور ہے ہیں اور اس کے نظریات کو عین اسلامی نظریات کے طور پر پیش کرنے کی جی توڑ محنت کی جا رہی ہے۔
عراق اور شام میں امریکا اور اس کے حلیف کے تابڑ توڑ حملوں کے باوجود اس تنظیم کا دائرۂ کار کیوں بڑھ رہا ہے اور اس کی کارستانیوں سے کس کو فائدہ اور کس کو نقصان پہنچ رہا ہے ؟ ان سوالوں کے جوابات عالمی میڈیا قصداً نظر انداز کر رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم قیادتیں بھی اب تک اس نتیجے پر نہیں پہنچ پائیں ہیں کہ داعش دراصل دشمنان اسلام کامحض ایک ہتھیار ہے جس کا سہارا لے کر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ لڑ رہے ہیں۔ داعش کی ہر شیطانیت کے بعد مسلم دنیا اپنی صفائی دینے میں لگ جاتی ہے۔
عالمی اور ملکی سطح پر ملی تنظیمیں مدافعانہ طرز عمل اختیار کر لیتی ہیں۔ داعش کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف فتوے دیے جاتے ہیں۔ اسلام کی امن پسندی کے نعرے بلند ہوتے ہیں۔اور مذہب اسلام مجرموں کی طرح کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ داعش کو ”اسلامی تنظیم” سمجھ کر اسلام کا دفاع کرنے والے اتنی چھوٹی سی بات کیوں نہیں سمجھتے کہ آخر افغانستان اور عراق کوچند مہینوں میں تباہ و برباد کر دینے والے امریکا اور اس کے اتحادی کیوں داعش کو کچلنے میں ناکام ہو رہے ہیں؟کیوں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں مل کر بھی ایک ایسی تنظیم کا خاتمہ کرنے سے قاصر ہیں جسے محض پانچ سال قبل کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔
افغانستان سے طالبانی جنگجوئوں کو تباہ و برباد کر دینے والے، عراق سے صدام حسین کا منٹوں میںتختہ پلٹ دینے والے اور مصر سے جمہوری طور پر منتخب حکومت کا نظام تہ و بالا کردینے والے اتنے بے بس کیوںہو گئے ؟ واقعہ یہ ہے کہ”دہشت گردی کے خلاف جنگ” ایک ایسی معرکہ آرائی ہے جسے اسلام دشمن جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ اسامہ بن لادن اور البغدادی جیسے ”فرضی دشمنوں” کے خلاف یہ جنگ تا قیامت جاری رہے گی اور جس کی بدولت یہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرتے رہیں گے۔
فرانس میں ہوئے حالیہ واقعہ کے بعد یہ ”منتشر دشمن” پھر سے متحد ہو رہے ہیں۔ ان کی صفوں میں اسلام کے نام لیوا بھی نظر آرہے ہیں۔ یہ نام نہاد مسلمان ہیں یا مصلحتاً اس صف میں شامل ہیں یا انہیں اس کا شعور ہی نہیں کہ وہ غیر شعوری طور پر کس کے حلیف بن رہے ہیں، ان سوالوں سے قطع نظر ”ایشین ایج” کے 18 نومبر 2015 ء کے اس ادریے پر نظر ڈالتے ہیں جس میں عالمی سطح پر ہونے والی اسی”صف بندی” پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اداریے کے شروعات ہی اس جملے سے ہوتی ہے”Last week’s terrorist attack in Paris looks like becoming a game changer.”یہ واقعہ ”گیم چینجر” کیوں ہے؟ اس کی وضاحت اداریے کی دوسری سطر کرتی ہے” یہ واقعہ اہم ممالک کو بہت تیزی سے از سر نو منظم کر رہا ہے جو عالمی امور میں ایک نئی تبدیلی رونما کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جس کی شروعات داعش کے خلاف”مشترکہ جدو جہد ” سے ہوگی۔
شمالی شام کے الرقہ میںفرانسیسی طیاروں کی امریکی مدد سے کئے جانے والے حملے اور روسی جنگی طیاروں کے داعش کے دار الحکومت پر کی جانے والی حالیہ بمباری کے حوالے سے اداریے میں لکھا ہے کہ روس، امریکا اور فرانس نے آخری مرتبہ مشترکہ فوجی کارروائی دوسری عالمی جنگ میں ہٹلرکے جرمنی کے خلاف کی تھی۔کسی سیاسی معاہدے کے بغیر شروع کیا گیا مشترکہ فوجی آپریشنگرچہ وقتی ہوتا ہے اور اس کی مدد سے دو حریف ممالک کو دوست نہیں سمجھا جا سکتا۔ لیکن اگر دشمن ایک ہو اور اس کے خلاف چھیڑی گئی جنگ طویل ہو تو حریف ممالک بھی دوست بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے اپنی مسلح افواج کو واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ فرانس اب ان کا ایک ” اتحادی” ہے۔
اداریے نے ترکی میں منعقدہ جی 20کے حالیہ اجلاس میں بارک اوبامہ اور ولادیمیر پیوتن کی نصف گھنٹے کی تفصیلی ملاقات، فرانسیسی صدرفرانسو اولاند کا 24نومبر کو متوقع امریکی دورہ، اس کے بعد ایرانی صدرحسن روحانی کی پیرس میںفرانسو اولاند سے ہونے والی ملاقات کو پیرس میں ہوئے دہشت گرانہ حملے کے بعد عالمی سطحکی اہم پیش رفت اور تبدیلی بتایا ہے۔ اداریے کے مطابق داعش پر کیا جانے والا حملہ نہ صرف یورپ میں سیاسی تبدیلی رونما کر سکتا ہے بلکہ مغربی ایشیا کے ممالک کے باہمی تعلقات پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
شام میں جاری بحران کے باوجود پہلی دفعہ صدر بشارالاسد کی پشت پناہی کرنے وا لا ایران اور اپوزیشن اتحاد کا حمایتی سعودی عرب داعش کے معاملے پر ایک پلیٹ فارم پر نظر آ رہے ہیں۔ عالمی سطح کی ایسی صف بندی کا تصور پیرس حملے سے قبل ناممکن تھا۔ اہل نظر اور ہوش مندوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ صف آرائی در حقیقت کس کے خلاف کی جاری ہے۔
تحریر: سلمان غنی، پٹنہ