تحریر : راؤ خلیل احمد
بچپن میں قتل کے ایک مقدمہ کے سبب اپنی جنم بھومی سے دور ایک شہر میں رہنا پڑا۔ گھر سے تھوڑا دور برف والے کا پھٹا تھا ۔ مجھے وہاں سے برف لینے جانا پڑتا تھا،راستے میں ایک گلی کی نکر پر ایک گھر ہوا کرتا تھا جس کے سامنے ایک چھوٹا لڑکا آنے جانے والے کو گالیاں دیا کرتا تھا اور گالیوں کا لیول بھی ایسا جو اس وقت میری سمجھ سے بالا تر تھا ، بڑے بھائی سے پوچھتا تو وہ بتانے کی بجائے خاموش اور سنی ان سنی کی تلقین کرتے۔ کئی بار سوچاکہ اس چھوٹے کے والد کو بتاؤں مگر گھر میں کئی نسل کے لوگوں کی آمد و رفت کی وجہ سے چھوٹے کے والد کا اندزہ نھیں کر سکا۔ اندر جاتے ہی چھوٹے کو باہر نکال دیتے ۔ ۔ ۔ اور جاتے وقت دو ٹکے اس کو بھی دے جاتے ؛ایک دو کو اس کی شکایت کی کوشش کی کہ شائد یہ اس کا باپ ہو مگروہ بھی کنی کترا کر پتلی گلی سے نکل گئے۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر ماجرہ کیا ہے میں اس چھوٹے کا کروں تو کیا کروں خیر وقت نکل گیا۔ کیس کی سیٹلمنٹ کے بعد ہم واپس اپنی جنم بھومی واپس آگئے میں سب بھول بھال گیا تھا بات بھی زہن سے محو ہو گئی مگر کل ایک پوسٹ نظر سے گزری اس پوسٹ کا لب و لہجہ بلکل وہی تھا وہی دو ٹکے کی اکٹر ، بے غیرتی میں ڈوبے وہی الفاظ جو اس چھوٹے کے پہلے سمجھ نھیں سکا تھا ،آج پکا یقین ہو چکا ہے کہ وہ دو ٹکے کا چھوٹا بھی اب پیرس پہنچ چکا ہے۔
14 دسمبر کو فرانس کی سیاسی صورتحال پر “پیرس کی ڈائری” تحریر کی جس کا مقصد اردو بولنے والوں کو فرانس کی کرنٹ سیاسی صورتحال سے اگاہ کرنا تھا کیونکہ مئی 2017 میں صدارتی الیکشن ہو رہے ہیں اور میں ایک صحافی ہونے کے ناطے ارادہ رکھتا ہوں فرانس کی کرنٹ صورتحال اردو سمجھنے والوں کو ہر ماہ پہنچاوں ۔ اس ڈائری میں فرانس کی خفیہ پولیس کی کاروائی میں آٹھ پاکستانیوں کی گرفطاری کا زکر تھا ۔ گرفطار فرنچ پولیس نے کیے میڈیا میں کی گئی رپوٹ اور اس کے کمیونٹی پر تاثرات کے حولے کا ڈائری میں زکر گرفطار افراد کے ورٹی بریٹس کو سخت تکلیف کا باعث بنا ۔ میں نے محسوس کیا کہ شائد اتنی تکلیف کا سامنا گرفطار ہونے والوں کو نھیں ہوا ہو گا جتنی ان کو ہوا۔ یورپ آکر بھی خود کمانے سے قاصر دوسروں کے دو ٹکوں پر پلنے والوں کو شائد ہڈی کے چھن جانے کا اتنا غم ہوا کہ نام نہاد سٹیٹس بھول کر تمام لمٹس کراس کر دیں۔
او گدھے کی اولاد ؛ پی ٹی آئی فرانس کا سرمایا ابرار کیانی اور طاہر اقبال جیسے سنس ایبل مخیر حضرات کے ہوتے ہوئے تم بھوکے نھیں مرو گے۔ اور اگر وہ تمہارا حسب نسب جان کر جان چھڑا لیں تو فرانس میں کلوشاروں کے لیے کئی مقام پر کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور یہ بات آج کل کے تمہارے روحانی والدین اچھی طرح جانتے ہیں ۔ ان کے چہرے سے بھی اگلی تخلیق میں پردا اٹھاوں گا۔ اور یہ یاد رہے میں لفظوں کا کھلاڑی ہوں ماسک جو بھی پہنو شیطان کے تسلط میں مقید کھوپڑی سے غوں غوں کی آواز نکالو یا بھوں بھوں کی میں اندر کے سؤر کو جانتا ہوں۔ معصوم لوگوں کا نقاب استعمال کرو یا جعلی آئی ڈی سے ، ہر ایک کو وہاں پہنچا کر رہوں گا جہاں اسے ہونا چاہیے بے غیرتی کا لمبادہ اوڑھے خارجیت کے علمبردار سازشی ، شرارتی لگڑ بھگڑوں کی فرانس میں کوئی جگہ نھیں۔ اور ہاں آب ہر فنگشن کا سٹنگ اپریشن ہو گا۔
Shazaib Bhatti نے بھی اپنے حصے کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اور تحریر پر سوال یوں آٹھایا کی ” راؤ صاحب بہت اچھا لکھا آپ نے ،لیکن آخری پیرا گراف لکھتے وقت شاید آپ بھول گئے #کامران گھمن # وھی کامران گھمن جو ادارہ منہاج القران کو عطیات (Donations) دیتے تھے۔ ھر عید اور شب رات پر۔ ادارہ منہاج القران میں 500 سے 1000 لوگوں کے کھانے کا انتظام بھی یہی گھمن صاحب ھی کیا کرتے تھے۔ آج اسی کامران گھمن کی وجہ سے آپکو بحثیت پاکستانی شرمندگی محسوس کیوں ھو رھی ھے ۔؟ کیا پہلے آپکو گھمن صاحب کے زرائع آمدن کا پتا نہیں تھا۔؟ جب آپ اور آپکا ادارہ منہاج القران گھمن صاحب سے منہ کھول کر چندہ اور عطیات وصول کرتے تھے۔ کھلی منافقت کی اعلی مثال قائم نہ کر یں راو صاحب۔ امید کرتا ھوں کہ آپ میرا کمنٹ ڈیلیٹ کرنے کے بجائے وضاحت کرنا پسند فرمائیں گے۔ شاہ زیب آپ کے لیے صرف اتنا ہی لکھونگا کہ “ہوئے تم دوست جس کے تو اسے دشمن کی ضرورت کیا ہے” ان گرفطاریوں میں فخر والی بات کونسی بات ھے۔ میں کوئی منھاج القرآن کا فنانس سیکرٹری نہیں ،ہو سکتا ہے آج کل سپریم کورٹ میں بھی اسمبلی میں کی ہوئی بات کو سیاسی بیان کہا جا رہا ھے گھمن نے بھی آپ سے کوئی سیاسی بیان دیا ہو جو آپ اسے ایوڈنس بنا کر پیش کر رھے ہو۔
اصول یہ ہے جس پر شک ہو اسے پکڑا جاتا ہے جو پکڑا جائے ہو وہ ملزم ہوتا ہے ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے،پولیس برآمدگی ڈال کر ملزم کو مجرم ثابت کرواتی ہے ، آپ جیسے سیانے دوستوں کے ہوتے ہوئے پولیس کا یہ کام بہت آسان ہو جاتا ھے ! ایک واقعہ آپ کی ںطر ایک شخص نے جنگل میں تکلیف میں گھرے ایک ریچھ کے پاؤں سے کانٹا نکال دیا ریچھ نسلی تھا اس شخص کے ساتھ ہو لیا اور اپنے تعیں اس کی حفاطت کرنے لگا ؛ایک دوپہر کو آدمی درخت کے نیچے سو رہا تھا ،ایک مکھی نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا ، ریچھ اپنے دوست کے ہاتھ سے اڑاتا تو وہ پاؤں پے بیٹھ جاتی پاؤں سے اڑاتا تو منہ کبھی یہاں بیٹھتی کبھی وہاں بیٹھتی آخر تنگ آکر ریچھ نے اپنے محسن کو بچانے کے لیے مکھی کو مارنے کا فیصلہ کیا ، جیسے ہی منہ پے بیٹھی ریچھ نے پتھر مار کر مکھی کو مار دیا ۔ ۔ ۔ ! وہ تو ریچھ تھا پر تم تو ایک انسان ہو۔ یہی سب آپ کر رہے ہو کامران ساری زندگی کے لیے اندر نھیں گیا آ جائے گا اور اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ آپ جیسے سیانے دوستوں کے ساتھ کیسے رہنا ہے۔
ذاتی مفادات کی خاطر فرانس کو نقصان پہنچانے والوں کی حمایت نمک حرامی کی اعلیٰ مثال ہے۔ زاہد خاں
پاکستان پیپلز پارٹی فرانس کے سینئر رہنما زاہد خاں کا حالات حاضرہ پر بیان ایک روشن دماغ شخص کی حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ زاہد خاں کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی ایک نظریاتی پارٹی ہے، اس میں کچھ گھسپٹیے ڈنٹ ڈال رہے ہیں۔ ہم ایسا ہونے نہیں دینگے، فراڈ سے حاصل کی جانے والی رقم کے بینی فشری بھی اتنے ہی قصور وار ہیں جتنے کرنے والے ہم ان سب کی مزمت کرتے ہیں۔ ہم فرانس حکومت سے درخواست کرتے ہیں، کہ ایسی کالی بھیڑیں جو فرانس کو نقصان پہنچانے والوں کی حمایت میں ہیں ان کو بھی قانون کے کٹھرے میں لایا جائے۔کامران گھمن اور چوہدری گلزار لنگڑیال کا کیس فرنچ پولیس کے پاس ہے، ایسے میں اس کی حمایت یا مخالفت شعور والوں کا کام نھیں، بلکہ کار سرکار میں مداخلت ہے۔ ویل سیڈ زاہد خاں جب دو ٹکے کے لوگ اہم پارٹیوں میں مرکزی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں تو پارٹی کے اصل سرمائے کو دو کوڑی کا کر دیتے ہیں۔ ایسے میں سینس ایبل افراد کو چاہئے کہ اس گند سے جتنی جلد ممکن ہو چھٹکارہ حاصل کر لیں ورنہ ایسے کلوشار دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والے ایمان بیچنے میں دیر نھیں لگاتے اور پھر آپ پر ہی بھونک رہے ہونگے۔