تحریر : راؤ خلیل احمد
دل چاہتا ہے نکل جاوں گھر سے اور ٹکر ماروں ہر اس کھوپڑی کو جو اب بھی خاموش ہے ، جو ڈاکٹر قادری کے دیے ہویے اتنے کلیر اویڈنس کے ہوتے ہوئے بھی میاں صاحبان کی وکالت کرتی ہے . دل چاہتا ہے ٹکر مار کے بھسم کر دوں ہر اس پٹواری کی کھوپڑی کو جو اب بھی میاوں میاوں کرتی ہے۔
دل چاہتا ہے ٹکر ماروں ہر اس کھوپڑی کو جس میں بھیجہ نہیں ہے اور اگر ہے تو فریز ہو چکا ہے . دل چاہتا ہے ایسے بھیجوں کو نکال کر کتوں کو ڈال دوں جو ملک سے زیادہ آل نواز کی محبت میں گرفطار ہیں. اور افسوس ہے ایسے بھیجوں پر بھی جو قسم تو ملک کی حفاظت کی کھاتے ہیں مگر ملکی سالمیت سے کھیلنے والوں کی ہر حرکت پر ابھی تک خاموش ہیں۔
دل تو پاگل ہوا چاہتا ہے مگر کیا کروں دماغ جو ڈاکٹر قادری کے عالمی امن کے دائی کا سبق پڑہے ہوئے ہے. سوچتا ہوں کہ کب تک یہ ہو سکے گا برداشت آخر کب تک ! . . . . آخر کب تک امن کے رکھوالے دیکھتے رہیں گے ملک کی سلامتی سے کھلوار. آخر کب تک!۔
اقرار سب کرتے ہیں کہ ڈاکٹر قادری ٹھیک تھے. آخر کب تک یہ مانیں گے ! اور کب یہ مانیں گے جو کل ٹھیک تھے تو آج کیسے غلط ہو سکتا ہے . رمضان شوگر مل کی آگ بتاتی ہے کہ وہ آج بھی ٹھیک کہ رہے ہیں. آخر کب تک یہ کہتے رہیں گے کہ ڈاکٹر قادری ٹھیک کہتے تھے ، اور کب یہ مانیں گے کہ ملک کی سلامتی سے کھیلنے والے حکمرنوں کے محاسبے کا وقت آ چکا ہے. آخر کب تک۔
تحریر : راؤ خلیل احمد