پیرس (اے کے راؤ) فرانس سے برطانیہ جانے کے لیے سمندر کے نیچے خود ساختہ یورو ٹنل ایک حیران کن راستہ ہے۔ جیسے یورپ سے برطانیہ جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے 50 کلومیٹر کا یہ راستہ اپنی گاڑی چھوٹی کار سے بڑے ٹرالے تک ٹرین میں لوڈ کر کے لے جا سکتے ہیں اور اسی راستے ہے پیرس سے ٹرین ڈھائی گھنٹے میں 300 کلومیٹر کی سپیڈ سے لندن پہنچاتی ہے ۔اور یہی راستہ انسانی سمگلروں کا آسان حدف ہے انسانوں کو فرانس سے برطانیہ منتقلی کا۔ اس فرانسیسی ساحل کو “CALIS ” کہا جاتا ہے۔ دوسری جانب برطانیہ میں ڈوور کہلاتا ہے۔
2015 میں عراق ، شام ، افغانستان اور افریقہ سے دس لاکھ سے زائد تارکین وطن کی آمد اور مسلسل یورپ آمد نے اس علاقے کی صوتحال کو گھم گھیر بنا دیا ہے۔ بے یارو مددگار پناہ گزینوں نے یہاں پڑواؤ ڈالا ہوا ہے جن کی تعداد ہزاروں میں ہے ، موسم کی شدت اور بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر فرانسیسی حکومت اس کیمپ کو ختم کرنے کے بعد استقبالیہ مراکز قائم کرکے تارکینِ وطن کو وہاں منتقل کرنا چاہتی ہے۔ تارکینِ وطن کو خدشہ ہے کہ فرانسیسی حکام ان سے زبردستی انگلیوں کے نشان حاصل کرنے اور انھیں فرانس میں ہی پناہ کی درخواست دینے پر مجبور کریں گے اور ان کا برطانیہ پہنچنے کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
اتوار اور پیر کی رات تارکینِ وطن کے کیمپ کو مسمار کرنے کا کام شروع کیا جس میں فرانسیسی حکام کو مزحمت کا سامنہ کرنا پڑا کیمپ کو مسمار کرنے کے دوران پیر کو جھڑپیں ہوئی تھیں۔ اور یہ اپریشن تا حال جاری ہے فرانس کی پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ ان استقبالیہ مراکز میں منتقل نہ ہونے والے تارکینِ وطن کے خلاف کارروائی ہو گی۔
اسی کیمپ میں مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ منہاج ویلفیئر فاونڈیشن یو کے اور فرانس نے بھی خوراک ، کمبل ،گرم کپڑے اور ٹینٹ کے زریعے پناہ گزینوں کی مدد کی ہے۔ فرانسیسی حکام کے خیال میں اس منصوبے سے ایک ہزار کے قریب تارکینِ وطن متاثر ہوں گے جبکہ وہاں کام کرنے والے رضاکاروں کے اندازوں کے مطابق یہاں رہنے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔